ہے خوشنما چمن کہ کئی رنگ کے ہیں پھول
یکرنگ یوں بنانے کی کوشش فضول ہے
گیتا کو قومی مذہبی کتاب قرار دینے کی تجویز
ہندوستان ہمہ مذہبی، ہمہ تہذیبی و لسانی ملک ہے۔ اس میں وحدت میں کثرت کے کردار اور سیکولرازم کی روح مؤجزن ہے۔ جب سے بی جے پی نے اقتدار سنبھالا ہے اس کے نظریاتی کارندے آئے دن سیکولر ہند کے سینہ پر چھرا گھونپ کر اپنے زغفرانی مقاصد کا زخم لگا رہے ہیں۔ وزیرخارجہ سشماسوراج نے بھگوت گیتا کو قومی مذہبی کتاب قرار دینے کی تجویز پیش کی ہے۔ یہ تجویز اس سیکولر ملک کے عوام کیلئے ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن پارٹیوں نے خاص کر ڈی ایم کے اور این ڈی اے کی حلیف پی ایم کے نے اس تجویز کی سختی سے مخالفت کی ہے۔ ڈی ایم کے صدر ایم کروناندھی نے سشماسوراج کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان ایک سیکولر جمہوریہ ہے جس کی دستور میں صاف طور پر وضاحت کردی گئی ہے۔ حکومت کا فرض ہوتا ہیکہ وہ دستور کے بنیادی اصولوں کو ملحوظ رکھ کر اپنے حکمرانی کے فرائض انجام دے۔ کانگریس لیڈر ششی تھرور کا یہ بیان درست ہے کہ کئی مذاہب والے ملک میں کسی ایک کتاب کو کس طرح سے مقدس قرار دیا جاسکتا ہے؟ اگر گیتا کو قومی درجہ دینے کی بات کی جاتی تو دیگر کتابوں کو بھی قومی قرار دینے کا مطالبہ شروع ہوگا۔ حکومت کو ایک ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اسے ملک کے اتحاد اور سالمیت کیلئے کام کرنا ہوتا ہے نہ کہ انتشار پسندانہ حرکتوں سے ملک کی بنیادوں کو کمزور کردیا جائے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کو اپنے نظریاتی سیاست کو یوں بے لگام کرکے انتشار پیدا کرنے کی کوشش سے احتراز کرنا ہوگا۔ نریندر مودی زیرقیادت حکومت نے اقتدار کے 6 ماہ پورے کرلئے ہیں۔ اس ملک کے عوام کے لئے اب تک کوئی ٹھوس پالیسی شروع نہیں کی اور نہ ہی عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کیا بلکہ ایک طبقہ کے عقیدہ کو پورے ملک پر مسلط کرنے والی حرکتوں کے ذریعہ ناپسندیدہ اور معیوب عوامل کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ بی جے پی کے سطحی پسند وزراء اور قائدین اپنے مشن کو آگے لے جاکر ایک بدامنی و کشیدگی کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ملک کے عوام نے بی جے پی کو اپنے ووٹوں سے اتنا مست و مسرور کردیا ہیکہ اس کا سیاسی معدہ اسے ہضم نہیں کررہا ہے۔ اب بی جے پی کا معدہ پھٹنے کے قریب ہے۔ فرقہ پرستی کا دائمی قبض رکھنے والی بی جے پی اپنے نظریات کو بروئے کار لانے کیلئے بے چین ہے۔ ایک بات تو طئے ہے کہ ناکارہ اور ناقص خام مال سے ایک پائیدار اور مستحکم شئے نہیں بناسکتے۔ سادہ سی بات ہے بی جے پی اپنے ناپاک عزائم اور زعفرانی مقاصد کے ساتھ ملک میں ایک اچھی حکمرانی کی ذمہ داری پوری نہیں کرسکتی۔ اس کی زبان سے نکلنے والے الفاظ ملک کے اتحاد اور اس کی تہذیبوں کو پامال کرتے جائیں گے مگر ہندوستان میں دیگر طاقتیں بھی ہیں جو بی جے پی کو اس کے ارادوں میں ہرگز کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔ اپوزیشن کے طور پر کانگریس مضبوط نہ سہی دیگر سیکولر و علاقائی پارٹیاں مرکز میں اٹھانے والے غیرجمہوری، غیردستوری کاموں کو روکنے میں اہم رول ادا کریں گے۔ تمام سیکولر پارٹیوں کو چاہئے کہ وہ باہمی طور پر متحد ہوکر بی جے پی اور سنگھ پریوار کے منصوبوں کو ناکام بنائیں۔ تعلیمی شعبہ کو زعفرانی رنگ دینے کی کوشش کے بعد بھگوت گیتا کو قومی کتاب قرار دینے کا شوشہ چھوڑا گیا ہے۔ بی جے پی کے قائدین اپنے زعفرانی دھاگے سے ہندوستان کے سیکولر پرچم پر زعفرانی رنگ کا پیوند لگانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر بی جے پی قائدین نے ازخود احتیاط نہیں برتی تو سیکولر قائدین کو مورچہ سنبھالنے کی ضرورت ہوگی۔ عوام بھی گذشتہ 6 ماہ کے دوران بی جے پی کے زعفرانی کرتوتوں کو دیکھا ہے۔ ملک میں ہر پانچ سال کے بعد ایک اچھی حکمرانی یا نظم و نسق لانے کیلئے انتخابات کروائے جاتے ہیں۔ یہ دستور آئین کا حسن ہے۔ جمہوریت کا آئینہ ہے مگر بی جے پی اس دستوری حسن و جمہوریت کے اعزاز کو اپنے پیروں تلے دبا کر اس کے تقدس کو پامال کرنا چاہتی ہے تو ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ اسے حلف لینے کے مطابق ہی حکومت کرنی ہے اس سے ہٹ کر وہ کچھ نہیں کرسکتی۔ بی جے پی نے اقتدار سنبھالتے ہی ایسی خبریں پھیلانے کا کام شروع کیا ہے جس سے نریندر مودی کے تمام انتخابی وعدے بھول کر لوگ دیگر مسائل میں الجھ کر رہ جائیں۔ یہ کوشش ہندوستان کو عدم استحکام سے دوچار کرکے ملک کو فرقہ وارانہ فسادات میں طویل عرصہ کیلئے مبتلاء کرنے کی گہری سازشوں پر عمل آوری کا حصہ ہوسکتی ہے۔ ہندوستانی قوم کو ایک نئی الجھن میں ڈال کر بی جے پی بہترین حکمرانی کے فرائض انجام نہیں دے سکتی۔