سابق صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام کے ہاتھوں اگنائیٹ 2014 ایوارڈ ، سائنس کے ذریعہ لوگوں کی مدد کرنا مزمل کا عزم
حیدرآباد ۔ 5 ۔ دسمبر : ( نمائندہ خصوصی ) : ہمارے اپنوں کا درد دور کرنے کے لیے کبھی کبھی انسان وہ عظیم کام کرجاتا ہے جس پر نہ صرف اس کے ارکان خاندان بلکہ اس کے اسکول ، شہر ، ریاست اور ملک کو بھی فخر ہوتا ہے۔ 11 سالہ مزمل پاشاہ جو کیاسل ٹاون ہائی اسکول میں ساتویں جماعت کا طالب علم ہے لیکن جب وہ اپنے دادا اور چچا کو گھٹنوں کے درد میں مبتلا دیکھتا تو اس کا دل تڑپ جاتا تھا ۔ مزمل نے ان کے جوتوں کی ایڑی کو نئے طور پر ڈیزائن کرنے کا فیصلہ کیا اور اس نے ایڑی کی ثقلیت میں تھوڑی سی تبدیلی کی کیوں کہ ان کی بناوٹ ہر شخص کے ڈیل ڈول کے مطابق وضع کی جاتی ہے ۔ جو لوگ موٹاپے کا شکار ہیں ان کے جسم کا پورا وزن گھٹنوں پر پڑتا ہے اور انہیں شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ مزمل نے جوتوں کی ایڑی میں زائد چمڑے کو شامل کیا اور اس طرح محراب نما جوتے کی ایڑی کو مزید آرام دہ بنایا ۔ مزمل پاشاہ کے والد چاند پاشاہ عثمانیہ یونیورسٹی میں مائیکرو بائیولوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں ۔ مزمل اکثر اپنے مکان پر اپنے والد کے طلباء کو کشش ثقل ، الیکٹرو میگنٹیزم اور تابکاری شیلڈس کے موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے دیکھتا تھا جو اس کے لیے کوئی نئے موضوعات نہیں تھے ۔ البتہ طلباء اگر کسی پراجکٹ پر باہم تبادلہ خیال کرتے تو اس سے مزمل کو تحریک ملتی تھی ۔ اس کے والد نے بتایا کہ انہوں نے آن لائن بھی کافی سرچ کیا کہ کیا ایسے کسی جوتے کا وجود ہے جو گھٹنوں کے درد کو کم کرسکے لیکن پتہ چلا کہ ایسا کوئی جوتا نہیں ہے ۔ لہذا انہوں نے نیشنل انوویشن فاونڈیشن سے رجوع کیا تاکہ اس نوعیت کے جوتے کے حقوق کو محفوظ کروایا جاسکے ۔ پروفیسر چاند پاشاہ نے کہا کہ مزمل نے چونکہ موٹاپے کے شکار افراد کے لیے ایک نئے قسم کے جوتے کی ایجاد کی تھی لہذا اس کے حقوق محفوظ کروانا لازمی تھا تاکہ مستقبل میں کوئی قانونی تنازعہ پیدا نہ ہو ۔ دوسری طرف خود مزمل کا کہنا ہے کہ نئے وضع کے جوتے تیار کرنے میں اسے ایک سال کا عرصہ لگ گیا ۔ جس کے بعد IGNITE-2014 میں اس نے اپنی اس ایجاد کی نمائش بھی کی اور اس طرح اگنائیٹ 2014 نے جوتے کی اس نئی وضع کے لیے درخواست کا ادخال بھی کررہا ہے جسے عنقریب مسلح افواج کے لیے متعارف کیا جائے گا ۔ مزمل پاشاہ کے علاوہ ان کا ایک اور بھائی اور ایک بہن بھی ہیں ۔ یہ خاندان ایس آر نگر کے راجیو نگر میں رہائش پذیر ہے ۔ مزمل کو گھر والے پیار سے ’’ لڈو ‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں ۔ ان کے والد نے بتایا کہ وہ مزمل کو ایک سائنسداں کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ مزمل نے ایک الیکٹرو میگنیٹک شیلڈ بھی ڈیزائن کی ہے جسے اگر موبائیل فونس میں فٹ کردیا جائے تو تابکاری شعاعوں کے اثرات راست طور پر ہمارے جسم پر اثر انداز نہیں ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ مزمل نے مختلف دھاتوں کے ذریعہ یہ شیلڈ تیار کی ہے ۔ جوتابکاری کی سطح کو 80 فیصد تک کم کرتی ہے جسے نظام آباد میں 22 ویں نیشنل چلڈرنس سائنس کانگریس 2014 میں پیش کیا گیا تھا ۔ اس ماڈل کو اتنا سراہاگیا کہ آئندہ ماہ منعقد شدنی ایک قومی پروگرام کے لیے بھی اس کا انتخاب عمل میں آیا ۔ مزمل اور اس کا بھائی جڑواں ہیں ۔ ان کا آبائی مقام نظام آباد کا ایک چھوٹا سا گاؤں جلاپلی ہے ۔ سب سے زیادہ فخر کی بات یہ ہے کہ کچھ روز قبل گجرات کے شہر احمد آباد میں آئی آئی ایم احمد آباد کی جانب سے ترتیب دئیے گئے ایک پروگرام میں مزمل پاشاہ کو سابق صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام نے IGNITET-2014 ایوارڈ سے نوازا جس کی سفارش نیشنل انوویشن فاونڈیشن نے کی تھی ۔ مزمل نے کہا کہ سابق صدر جمہوریہ سے ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں وہ سب سے کم عمر تھے اور انہیں اس وقت بڑا عجیب محسوس ہورہا تھا اور خود اپنے آپ پر بھی فخر ہورہا تھا ۔ یہی نہیں بلکہ اگنائیٹ 2014 ایوارڈ حاصل کرنے پر ان کے تمام دوستوں اور اسکول ٹیچرس کو بھی ان پر بے حد فخر ہے ۔ مزمل پاشاہ نے کہا کہ سائنس کی مدد سے دوسروں کی مدد کرنا اور عام آدمی کو فائدہ پہنچانا ان کا مقصد ہے ۔ وہ تلاوت قرآن بھی کرتے ہیں اور نماز بھی پڑھتے ہیں اور کرکٹ ان کا پسندیدہ کھیل ہے ۔ گذشتہ دنوں انہوں نے دفتر سیاست پہنچ کر مدیر اعلی جناب زاہد علی خان سے بھی ملاقات کی جہاں انہوں نے مزمل کے روشن مستقبل کے لیے دعائیں دیں اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا ۔۔