گوشت پر سیاست سے حیدرآبادیوں میں شدید برہمی

گوشت کا استعمال بند کردیں تو جانور سڑکوں پر آجائیں گے، حقیقی مسائل کی پشت پناہی
حیدرآباد۔2اپریل (سیاست نیوز) گوشت کے متعلق جاری سیاست پر شہریوں میں شدید برہمی کی لہر پائی جانے لگی ہے اور اترپردیش و گجرات میں مسالخ کے خلاف جاری کاروائی و قوانین کی تدوین پر مختلف رد عمل ظاہر کئے جانے لگے ہیں ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی برسر اقتدار ریاست مہاراشٹرا میں سب سے پہلے بڑے کے گوشت پر مکمل امتناع عائد کیا گیا تھا اور اس کے بعد سے بڑے گوشت پر سیاست کے نئے دور کا آغاز ہوا لیکن اترپردیش میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے فوری بعد غیر قانونی مسالخ مہربند کئے جانے کے عمل اور گجرات میں گاؤکشی پر 14سال کی سزائے قید کے اعلان کے بعد ایک مرتبہ پھر سے گوشت پر ملک کی سیاست گرما گئی ہے ۔ شہر حیدرآباد میں بھی گوشت پر کی جانے والی سیاست کے اثرات دیکھنے کو ملنے لگے ہیں اور لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ سیاسی قائدین اپنی سیاسی بقاء کیلئے گوشت پر سیاست کر رہے ہیں جبکہ عوامی فلاح و بہبود پر ناکامی کے عنصرپر اس طرح کی بیان بازیوں کے ذریعہ پردہ ڈالنے میں انہیں کامیابی حاصل ہونے لگی ہے۔ گوشت کھانے یا نہ کھانے اور گاؤکشی کے متعلق قوانین پر عام آدمی کا کہنا ہے کہ سیاستداں اپنی ناکامیوں پر غذا ئی سیاست کرنے لگے ہیں اوراس طرز سیاست کے ذریعہ وہ ایک دوسرے کو نفرت پھیلانے کی غذا کی فراہمی کے مرتکب بن رہے ہیں۔جناب محمد سلیم خان ساکن مغل پورہ نے بتایا کہ اگر گوشت پر مکمل امتناع عائد کردیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں جانور سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ جو لوگ گوشت پر امتناع کی بات کرر ہے ہیں انہیں سبق سکھانے کیلئے گوشت کھانے کی ضد کرنا اور ان کے ان بیانات کی مخالفت کرتے رہنا مناسب نہیں ہے بلکہ مجموعی طور پر اس بات کا فیصلہ کیا جانا چاہئے کہ ایک سال گوشت کا استعمال ترک کردیا جائے تاکہ ان لوگوں کو اس بات کا احساس ہو کہ گوشت کا بطور غذا استعمال کرنے والے ملک کی کتنی مدد کر رہے ہیں۔ اسی طرح بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ گوشت صرف مسلمان نہیں کھاتے بلکہ گوشت کا استعمال اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے پسماندہ طبقات کے لوگ بھی کرتے ہیں۔ غذائی آزادی کو سلب کرنے کیلئے کی جانے والی ان قانون سازیوں کے دوران گوشت پر جاری بیان بازیوں پر عام شہریو ںکا کہنا ہے کہ حکومت یا برسراقتدار طبقہ کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے حالات پیدا ہوتے ہی اس طرح کے کچھ بیانات گوشت کھانے کے حامی اور گاؤکشی کے مخالفین کی جانب سے جاری کئے جاتے ہیں کہ حقیقی مسائل پس پشت ہوجاتے ہیں۔