گورنروں پر دباؤ

دستور بالاتر ہے سیاست سے دوستو
تسکین انا کے لئے کھلواڑ نہ کرو
گورنروں پر دباؤ
مرکز کی این ڈی اے حکومت اب یو پی اے کے دور کی کارروائیوں خاص کر گورنروں کے تقررات کے معاملے میں جیسے کو تیسا قدم اٹھاتے ہوئے 7 ریاستی گورنروں کو ہٹا دینے کا تہیہ کرلیا ہے۔ اس تناظر میں گورنر یو پی بی ایل جوشی نے ازخود استعفیٰ دیا ہے تو یہ مرکز سے تصادم کی راہ اختیار کرنے سے گریز کا ایک احتیاطی قدم ہے۔ گورنروں کے تقررات کے تعلق سے میرٹ اور نان میرٹ کی بنیاد کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے این ڈی اے یو پی اے کے تقرر کردہ گورنروں کو نشانہ بنانا چاہتی ہے تو یہ سپریم کورٹ کے احکام کے مغائر قدم کہلائے گا۔ یو پی اے نے 2004ء میں اقتدار پر آنے کے بعد راج بھونس میں بی جے پی کے تقرر کردہ گورنروں جیسے یو پی کے وشواکانت شاستری، گجرات میں کیلاش پتی مشرا، بابو پرمانند (ہریانہ) اور گوا کے گورنر کیدر ناتھ ساہنی کو ہٹا دیا تھا۔ اب این ڈی اے نے اقتدار کا پورے اختیار سے استفادہ کرتے ہوئے یو پی اے کے 7 گورنروں کو ازخود استعفیٰ دینے کی ہدایت دی ہے۔ اگر کسی بھی گورنر نے مرکز کی ہدایت کو مسترد کردیا تو یہ عدالتی فیصلہ کے تابع ہوگا کیونکہ قبل ازیں اسی طرح کے کئی واقعات میں عدالت نے گورنروں کی میعاد سے قبل ہٹادینے کے مسئلہ پر فیصلہ سنایا ہے۔ مرکزی معتمد داخلہ انیل گوسوامی نے 7 گورنروں سے استعفیٰ طلب کئے ہیں۔ جن گورنروں کو ہٹا دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ان میں ایم کے نارائنا مغربی بنگال، کیرالا میں شیلاڈکشٹ، راجستھان کی گورنر مارگریٹ الوا، گجرات میں کملا بینیوال، مہاراشٹرا کے گورنر کے شنکر نرائن اور تریپورہ کے دیویندر کنور کے علاوہ یو پی گورنر جوشی شامل ہیں۔ ان میں سے جوشی کے استعفیٰ کے بعد گورنر کیرالا شیلاڈکشٹ نے اس فیصلہ کو قبول کرنے سے پس و پیش کیا ہے۔ بی جے پی اپنے وفادار سینئر قائدین کو روزگار سے منسلک کرنے کیلئے موجودہ گورنر کی میعاد سے قبل ہی ہٹادینے کی عجلت میں ہے تو یہ دستوری عہدہ کے ساتھ سیاسی زیادتیوں کا کھلا مظاہرہ کہلائے گا۔ اگر یہ گورنرس اپنے عہدہ سے ہٹنے سے انکار کردیں تو مرکز کی مودی حکومت کیلئے عدالتی کشاکش سے گذرنا پڑے گا کیونکہ قبل ازیں اسی طرح کے کیسوں میں سپریم کورٹ نے گورنروں کے تقررات اور استعفوں کے لئے دستوری اصولوں پر عمل کرنے کا حکم دیا تھا۔

سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ ان گورنروں کی برقراری کیلئے اپنا رول ادا کرسکتی ہے
کیونکہ 7 مئی 2010ء کو ہی سپریم کورٹ نے بی پی سنگل کی حکومت ہند کے خلاف کیس میں مدافعت کرتے ہوئے واضح کردیا تھا کہ گورنروں کے تقررات کو صرف صدرجمہوریہ ہی کالعدم کرسکتے ہیں۔ صدرجمہوریہ کو ہی یہ اختیار حاصل ہوتا ہیکہ وہ کوئی وجہ بتائے بغیر کسی بھی وقت گورنروں کو ہٹا دیں لیکن یہاں حکومت ہند آرٹیکل 156/1 کے تحت عجلت میں فیصلہ نہیں کرسکتی۔ اگر نریندر مودی زیرقیادت این ڈی اے حکومت نے موجودہ یو پی اے حکومت کے تقرر کردہ گورنروں کو ہٹا کر بی جے پی کے قائدین کے تقرر کا فیصلہ کیا ہے تو پھر شیلاڈکشٹ اور لیفٹننٹ گورنر نجیب جنگ کے بشمول 18 گورنروں کو اپنے عہدہ سے محروم ہونا پڑے گا۔ کسی وجہ سے ان گورنروں نے مرکز کی ہدایت قبول نہیں کی تو پھر مسئلہ عدلیہ سے رجوع کردیا گیا تو اس کیس میں عدالت کا قبل ازیں کیا گیا فیصلہ ہی قابل اطلاق ہوسکتا ہے۔ کسی گورنر کو اس بنیاد پر ہٹایا نہیں جاسکتا ہے کہ اس کا تقرر مرکز میں برسراقتدار پارٹی کے نظریات اور سیاسی وابستگی کے بغیر ہوا ہے۔ اگر مودی حکومت نے عدالت کے فیصلہ کے مغائر کارروائی کی تو جن گورنروں کو اپنے عہدوں سے محرومی کا اندیشہ ہوگا اس کے تحفظ کیلئے عدالت سے رجوع ہوسکتے ہیں۔ گورنروں نے مرکز سے تصادم کی راہ اختیار کرنے کا ابھی فیصلہ نہیں کیا ہے۔

یو پی کے گورنر پی ایل جوشی کا خاموشی سے استعفیٰ دینا سیاسی دباؤ کا حصہ ہے۔ ان کے بعد اگر مغربی بنگال کے گورنر ایم کے نارائنا نے بھی استعفیٰ دیا تو پھر گورنروں کے دستوری فرائض اور سیاسی دباؤ کے تناظر میں ایک خراب مثال قائم ہوگی۔ جب موجودہ گورنروں میں سے 7 گورنروں کی میعاد اس سال کے ختم پر پوری ہورہی ہے تو مرکزی حکومت کو ان کی میعاد کے ختم تک انتظار کرنا چاہئے۔ آئندہ سال جنوری میں مزید چار گورنروں کی میعاد ختم ہونے والی ہے اس کے بعد ہی بی جے پی کو اپنے پسندیدہ سیاسی قائدین کے تقرر کا فیصلہ کرسکتی ہے۔ آسام کے گورنر جے پی پٹنائک کی میعاد 10 ڈسمبر 2014ء کو ختم ہوگی۔ اسی طرح بہار کے گورنر ڈاکٹر ڈی وانی پٹیل نومبر میں سبکدوش ہوں گے۔ ڈاکٹر کملا گجرات گورنر بھی 14 اکٹوبر 2014ء کو اپنی میعاد پوری کریںگی۔ ہریانہ، کرناٹک، راجستھان اور تریپورہ کے گورنروں کی میعاد بھی آئندہ دو 3 ماہ میں ختم ہورہی ہے تو مرکز کو عجلت میں یا سیاسی بالادستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دستوری عہدوں کو پامال کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔