سیاست ہوگئی اب اِس قدر اخلاق سے عاری
اقتدار ملتے ہی انتقام اُبھر آیا
گورنرس اور مرکزی حکومت
مرکز میں بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے پندرہ بعد سے ہی متنازعہ امور پر مباحث شروع ہوگئے ہیں۔ مرکز کے کام کاج کو اپوزیشن اور خاص طور پر کانگریس نے نشانہ بنانا شروع کردیا ہے ۔ سب سے پہلے تو مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کو خصوصی موقف دینے والے دستور ہند کے دفعہ 370 کو حذف کرنے کے تعلق سے ایک شوشہ چھوڑا تھا ۔ اس پر تنقیدوں اور مذمتوں کو دیکھتے ہوئے فی الحال اس پر خاموشی اختیار کرلی گئی ۔ اب مرکز نے ریاستوں میں گورنرس کے تقررات کے مسئلہ پر اپنے عزائم پورے کرنے کی کوشش شروع کردی ہے ۔ ان ریاستوں کو خاص طور پر نشانہ بنانے کے اشارے مل رہے ہیں جہاں بی جے پی کو اپنے موقف کو مستحکم کرنے اور آئندہ مہینوں میں ہونے والے انتخابات میں کامیابیاں حاصل کرنے کی توقع ہے ۔ سب سے پہلے اتر پردیش کے گورنر بی ایل جوشی نے استعفی پیش کردیا ہے ۔ ان کے استعفی کو مرکز نے قبول کرتے ہوئے گورنر اترکھنڈ عزیز قریشی کو وہاں کی زائد ذمہ داری سونپی ہے ۔ اتر پردیش میں لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو توقع سے زیادہ کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد سے بی جے پی نے یو پی کی سماجوادی پارٹی حکومت کو نشانہ بنانے کا عمل بھی شروع کردیا ہے ۔ وہاں مختلف مسائل کو موضوع بحث بناتے ہوئے سیاسی کھیل کا آغاز ہوچکا ہے ۔ خواتین پر مظالم اور عصمت ریزی کے واقعات کو ضرورت سے زیادہ اچھال کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ یو پی میں لا اینڈ آرڈر ناکام ہوچکا ہے ۔ حالانکہ عصمت ریزی کے واقعات میں بی جے پی اقتدار والی ریاستیں بھی پیچھے نہیں ہیں اور وہاں بھی اس طرح کے مذموم واقعات پیش آ رہے ہیں۔ میڈیا بھی صرف اتر پردیش کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے اور ایک طرح سے وہ بی جے پی کی مدد کر رہا ہے ۔ میڈیا کا یہی رول لوک سبھا انتخابات کی مہم کے دوران بھی رہا تھا اور اب اسی کو توسیع دیتے ہوئے ان ریاستوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جہاں بی جے پی کی مخالف جماعتوں کی حکومتیں ہیں اور بی جے پی آئندہ مہینوں اور آئندہ سال تک ہونے والے اسمبلی انتخابات میں وہاں اپنے موقف کو مستحکم کرنا چاہتی ہے ۔
کہا جارہا ہے کہ اتر پردیش کے علاوہ بہار ‘ مہاراشٹرا ‘ مغربی بنگال ‘ کیرالا ‘ کرناٹک جیسی ریاستوں کے گورنرس کو بھی مرکز کی جانب سے استعفی دینے کیلئے پیام بھیج دیا گیا ہے ۔ حالانکہ مرکز کی جانب سے تردید کی گئی ہے کہ ان گورنر کو استعفوں کیلئے نہیں کہا گیا ہے لیکن جو حالات پیدا کئے جا رہے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ مرکزی حکومت چاہتی ہے کہ ان ریاستوں کے گورنرس استعفے پیش کردیں تاکہ بی جے پی کے قائدین اور پارٹی کے نظریات سے اتفاق رکھنے والی شخصیتوں کو ان عہدوں پر فائز کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جاسکے ۔ مغربی بنگال اور مہاراشٹرا کو خاص طور پر ترجیح دی جا رہی ہے ۔ مغربی بنگال میں حالانکہ بی جے پی کچھ نہیں کر پائی ہے شائد اسی لئے وہاں سیاسی مخالفت کو بنیاد بنایا جارہا ہے جبکہ مہاراشٹرا میں چند مہینوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور وہاں بی جے پی کو امید ہے کہ لوک سبھا انتخابات کے نتائج کی طرح اسمبلی انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کی جائیگی ۔ اسی لئے وہاں بھی گورنر کو ہٹانے اور نئے گورنر کو مقرر کرنے کے عزائم دیکھے جا رہے ہیں۔ گورنر کرناٹک مسٹر ایچ آر بھردواج کی معیاد جاریہ مہینے ہی مکمل ہونے والی ہے اس لئے شائد وہاں زیادہ زور نہیں دیا جارہا ہے ۔ کرناٹک میں بی جے پی کو اسمبلی انتخابات میں شکست ہوئی تھی تاہم لوک سبھا انتخابات کے نتائج سے پارٹی کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور وہ وہاں سدار امیا حکومت کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوئی حکمت عملی اختیار کرکے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرسکتی ہے ۔
اس طرح کے عزائم اور منصوبہ بندی ملک کی جمہوریت اور وفاقی ڈھانچہ اور دستوری اقدار کے مغائر کہی جاسکتی ہے ۔ مرکز میں نئی حکومت کی تشکیل کے بعد حالانکہ اس طرح کی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں اور حکومتیں اپنی مرضی سے تقررات کرنا پسند کرتی ہیں لیکن سیاسی عزائم اور مقاصد کی تکمیل کیلئے اور انتخابی فائدہ حاصل کرنے کیلئے اس طرح کے دستوری عہدوں کا استحصال کرنا اور حکومت کے اختیارات کو بیجا استعمال کرنا قطعی درست نہیں کہا جاسکتا ۔ جہاں ریاستی گورنرس کو اس معاملہ میں مرکز کی تبدیلیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہیں مرکزی حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ محض سیاسی با ز آباد کاری اور اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے اس طرح کی صورتحال پیدا کرنے سے گریز کرے جس کے نتیجہ میں گورنرس اور مرکزی حکومت کے مابین ٹکراؤ کی صورتحال پیدا ہو ۔ یہ صورتحال نہ ملک کے دستوری اقدار کیلئے بہتر ہوگی اور نہ اس سے ملک کے عوام کو کوئی اچھا پیام جائیگا ۔