سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک مسلم خاتون نے تقریباً۲۰ سال قبل ایک غیر مسلم سے کورٹ میریج کرلی، اس سے دو بالغ اولاد ہے۔ وہ بھی غیر مسلم ہیں لیکن خاتون نے اپنا مذہب تبدیل نہیں کیا۔ وہ پابندی سے نماز پڑھتی ہیں اور روزے بھی رکھتی ہیں اور اپنا دین اسلام جانتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ خاتون اپنے والدین کی متروکہ جائیداد میں حصہ پائیگی یا نہیں ؟
جواب : بشرط صحت سوال صورت مسئول عنہا میں شرعاً مسلمان عورت کا غیر مسلم شخص سے عقد منعقد ہی نہیں ہوتا اور یہ عمل حرام ہے ۔ عالمگیری ج اول ص۲۸۲ میں ہے : ولا یجوز تزوج المسلمۃ من مشرک ولا کتابی کذا فی السراج الوہاج۔
ایک مسلمان عورت اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے گناہ کے کام کرتی ہے تو وہ شرعاً والدین کے متروکہ سے محروم نہیں ہوتی کیونکہ گناہ مانع وراثت نہیں ہے ۔ ہاں اگر وہ دین بدل دے {معاذ اﷲ} تو وہ وارث نہیں ہوسکتی۔ شریفیہ شرح سراجیہ کے فصل فی موانع الارث میں ہے : المانع من الارث اربعۃ الرق و افرا کان اوناقصا والقتل الذی یتعلق بہ وجوب القصاص اوالکفارۃ ، واختلاف {الدینین} فلا یرث الکافر من المسلم اجماعا ولا المسلم من الکافر۔
پس صورت مسئول عنہا میں خاتون مذکور السوال اپنے والدین کے متروکہ سے حصہ رسدی پانے کی مستحق ہے۔
میت کو کس طرح رکھنا چاہئے
سوال : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جب کسی گھرمیں انتقال ہوجاتا ہے تو افراد خاندان کے چند لوگ مختلف باتوں میںاختلاف کرتے نظر آتے ہیں اور عموماً میت کو لٹانے ، میت کے بال میں کنگھی کرنے کے بارے میں اختلاف رائے ہوتاہے تو اس سلسلہ میں دو تین باتیں حل طلب ہیں۔ براہ کرم رہنمائی فرمائے۔میت کو شرعاً کیسا لٹانا چاہئے ، میت کو سمت قبلہ پیر کر کے لٹائیں یا جانب جنوب ، شرعا کیا حکم ہے؟ میت کے بالوں کو ترشوانا یا اس میں کنگھی کرنا و ناخن ترشوانا کیسا ہے ؟
جواب : صورت مسئول عنہا میں میت کو بوقت غسل یا قبل غسل لٹانے کے متعلق چونکہ کوئی صراحت احادیث میں نہیں پائی گئی اس لئے یہ مسئلہ فقہاء و علماء کے درمیان استدلالی ہوگیا ہے، بعض فقہاء میت کو بیمار پر {ایسا بیمار جو بوقت نماز قیام و قعود پر قادر نہ ہو} قیاس کر کے یہ لکھا ہے کہ میت کو ایسا چت لٹا جائے کہ اس کے پیر قبلہ کی جانب ہوں اور سر کے نیچے تکیہ و غیرہ دے کر اس قدر چہرے کو بلند کیا جائے کہ اگر میت کو ا ٹھایا جائے تو اس کا چہرہ قبلہ کی جانب ہوجائے، لیکن یہ استدلال {بیمار پر میت کو قیاس} ضعیف ہے، بعض فقہاء نے مکان و مقام کا اعتبار کرتے ہوئے جیسی سہولت ہو میت کو لٹانے کی اجازت دی ہے۔ اکثر فقہاء نے میت کو قبر پر قیاس کر کے یہ حکم دیا ہے کہ میت کو ایسا لٹایا جائے ، جیسا قبر میں رکھا جاتا ہے یا بوقت نمازِ جنازہ میت کو رکھا جاتا ہے ، یہ قیاس اقرب الی الفہم و العقل ہے کہ اس میں قبلہ و کعبہ کے آداب بھی ملحوظ رہتے ہیں۔ قبلہ کی جانب پیر دراز کرنا خلاف ادب ہے جیسا کہ فتاوی عالمگیری جلد ۵ ص ۲۱۹ میں ہے: یکرہ مدالرجلین الی الکعبۃ فی النوم و غیرہ عمدا اور فتاوی تاتار خانیہ کتاب صلاۃ الجنائز ص ۱۳۳ میں ہے۔ یوضع علی تخت … کما یوضع فی القبر یعنی میت کو تخت پر ایسا لٹایا جائے جیسا کہ قبر میں لٹایا جاتا ہے ۔
میت کے بال داڑھی و سر میں کنگھی کرنا ناخن ترشوانا منع ہے جیسا کہ قدوری باب الجنائز میں ہے : ولا یسرح شعرالمیت ولا لحیتہ ولا یقص ظفرہ ولا یقص شعرہ ۔
فقط واللّٰہ أعلم