آزادی‘تقریر کے پردے میں ہے دل سوزی
اور کیوں نہ ہو ہم بھول گئے حکم الٰہی
گستاخانہ خاکے اور عالم اسلام
فرانسیسی اخبار میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف عالم اسلام میں اضطراف و غم و غصہ پیدا ہونا فطری امر ہے ۔ اس مذموم حرکات سے جان بوجھ کر مسلمانوں کو اشتعال دلایا جارہا ہے ‘ یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے ۔ اس سے پوری دنیا کے مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہے ۔ ترکی نے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کو ناقابل برداشت قرار دیا ہے ‘ مذۃبی دل آزاری اور کسی طبقہ کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کیلئے اظہار خیال کی آزادی کا سہارا لینا ایک معیوب حرکت ہے ۔ پوپ فرانسیس نے بھی اس طرح کی اظہار خیال کی آزادی سے کسی کے مذہب کی اہانت ہوتی ہے تو مذموم حرکت کہا ہے ۔ یہ اظہار خیال کی آزادی نہیں بلکہ سراسر ایک مذہب کی توہین ہے جو دنیا کی ایک بڑی آبادی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی نیت سے کی گئی ہے ۔ گذشتہ ہفتہ پیریس کے اخبار چارلی ہیبڈو کے دفتر پر حملہ کرنے والوں نے یہی وجہ بتائی ہے کہ حضورؐ کی شان میں گستاخی کی حرکتوں کوہرگز برداشت نہیںکیا جائے گا ۔ ترکی کے ردعمل کو حق بجانب سمجھا جائے تو ساری دنیا کے امن پسند اور دیگر مذاہب کا احترام کرنیوالے افراد بھی گستاخی کو قبول نہیں کریں گے ۔ کیتھولک عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسیس نے دہشت گردوں کی بھی مذمت کی ہے ‘ خدا کے نام پر قتل کو نامعقول بات کیا ہے لیکن مذہب کی توہین بھی ناپسندیدہ عمل ہے ۔ ان کا یہ تبصرہ غور طلب ہے کہ اگر میرا کوئی اچھا دوست میری والدہ کو برابھلا کہتا ہے تو اسے ایک شدید ردعمل کے طور پر مکّیکیلئے بھی تیار رہنا چاہیئے ۔اس زمانے میںیہ معمول کی بات ہے کہ کوئی اشتعال کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اس کے جواب میں اسے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اخبار کے دفتر پر حملہ بھی اس شدید ردعمل کا نتیجہ ہے ‘ کسی کو بھی دوسرے مذہب کی بے عزتی کرنے اور اس کا تمسخر اڑانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ بلاشبہ ہر مذہب کا ایک اپنا وقار اور حدیں ہوتی ہیں ‘ ایسے میں فرانس کے حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ملک کے شرپسند عناصر کی سرکوبی کیلئے قدم اٹھائیں ۔ اخبار شارلی ہیبڈو نے اپنے دفتر پر حملے سے ایک ہفتہ بعد تازہ شمارے میں مزید گستاخانہ کارٹونس شائع کر کے اس کی 30لاکھ کاپیاں تقسیم کی ہیں جو سینہ زوری کہلاتی ہے ۔
اس طرح کی حرکتوں پر اگر حکومت و قانون چشم پوشی اختیار کرتاہے تو دوسری جانب سے نرمی کی توقع نہیں کی جاسکتی ‘ وزیراعظم ترکی نے حکومت فرانس کی خاموشی اور شرانگیمی کرنے والوں کے ساتھ کی جانے والی ہمدردی پر تنقید کی ہے ۔ اخبار شارلی ہیبڈو نے آزادی اظہار کی حدیں توڑ دی ہیں ۔ اس گستاخی کو عالم اسلام میں کھلی صلیبی جنگ بھی کہا جارہا ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف کھلی صلیبی جنگ کی اگر رکاری سطح پر تائید ہوتی ہے تو اس کے مستقبل میں بھیانک نتائج برآمد ہوں گے ۔ پیرس میں خطرناک حالات کے باوجود سرکش اخبار نے صیہونی میڈیا کے زیراثر اپنے تازہ شمارے میں مزید اہانت کا مواد شائع کیا ہے‘ یہ حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ اخبار کی اشاعت میں مداخلت کرتی اور امن کو درہم برہم کرنے والے واقعات سے گریز کرتی مگر ساری دنیا میں فاسٹ اسلام حرکتوں کو بڑھاوا دینے کی سازشوں کا حصہ بن کر حکومت فرانس سے اپنی ناسمجھ پالیسی کو بڑھاوا دیا ہے ۔ ساری دنیا کی رہبری کرنے والے اداروں جیسے اقوام متحدہ اور یوروپی یونین کو حالات کی سنگینی کا بروقت نوٹ لینے کی ضرورت تھی ۔ پیغمبراسلامؐ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کا ہاتھ پکڑنے سے گریز کرنے کا مطلب یہ عالمی ادارے بھی اس حرکت میں شریک جرم سمجھے جائیں گے ‘ کیونکہ جو غلط پہچان پیدا کی جارہی ہیں ‘ اس سے دہشت گردی کو ہی سب کچھ سمجھنے والوں کو عوامی جذبات سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا ۔ اسلامیہ فوبیا کے جذبات کے ذریعہ مزید اشتعال انگیزیاں کی جاسکتی ہیں تو اس کے منفی اثرات ساری دنیا کے امن و معیشت پر مرتب ہوں گے ۔ دنیا کے سمجھدار اقوام کے سربراہوں کا کام ہے کہ وہ اظہار خیال کی آمادی کے اصل فتنہ کو روکنے کی کوششیں کریں ۔ اگر ایک سیاسی اور مذہبی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو دل آزادی کو کوئی بھی طبقہ برداشت نہیں کرتا ۔ ترکی نے اس اشتعال انگیزی کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور یوروپی یونین کی توجہ اس جانب مبذول بکرانے برسلس میں یوروپی قائدین سے بات چیت کی ہے تو دیگر مسلم ملکوں اور عرب ممالک کی نمائندہ تنظیم عرب لیگ ‘ تنظیم اسلامی کارپوریشن کو بھی متحدہ طور پر گستاخانہ حرکتوں کے مرتکب اداروں کے خلاف سخت اقدامات کرنے کی پہل کرنی چاہیئے تاکہ مستقبل میں کوئی دل آزاری کا واقعہ پیش نہ آسکے ۔