حقیقت کچھ نہ تھی دعوے بہت تھے
مگر قسمت میں شیشوں کی دکاں تھی
گجرات کی ترقی ‘ بی جے پی خوفزدہ
جیسے جیسے انتخابات قریب آتے جا رہے ہیں بی جے پی کی بے چینیوںمیں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ پارٹی اس بار انتخابات میں بہرصورت کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے اور اس کیلئے ہر کوشش کی جا رہی ہے ۔ اقدار اور اخلاقیات کا پاس و لحاظ تو بی جے پی کے پاس پہلے بھی نہیں تھا اور اب تو اس کا خیال ہی دل سے نکالا جاچکا ہے ۔ پارٹی نے وزارت عظمی امیدوار نریندر مودی کو ایک مسیحا کے طور پر پیش کرنا شروع کردیا ہے ۔ خود مودی بھی خود کو ابھی سے مستقبل کے وزیر اعظم اور ماورائے قانون و دستور اتھاریٹی سمجھنے لگے ہیں۔ بی جے پی اور اس کا زر خرید میڈیا مودی کو ملک و قوم کا مستقبل قرار دینے میں جٹا ہوا ہے ۔ پارٹی ایک طرح سے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ مودی کے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہے جو پلک جھپکتے میں ملک و قوم کو درپیش مسائل کو حل کردینگے ۔ ان کے پاس کوئی ایسا جادو ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان کو درپیش ہر مسئلہ کا حل دریافت کر لے گا ۔ اس سلسلہ میں پارٹی اور خود مودی کی جانب سے ریاست گجرات کی ترقی کے جو دعوے کئے جا رہے ہیں وہ بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ پارٹی کی جانب سے صرف اعداد و شمار کو الٹ پھیر کر پیش کرتے ہوئے ملک کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ مودی کے دور حکومت میں گجرات کو ترقی ہوئی ہے ورنہ اس سے قبل گجرات ایک انتہائی پچھڑی ہوئی اور پسماندہ ریاست تھی ۔ یہ تاثر انتہائی غلط اور بے بنیاد ہے۔ کئی موقعوں پر یہ ثبوت مل چکا ہے کہ ریاست گجرات کی ترقی اتنی نہیں ہے جتنی دوسری ریاستوں نے کی ہے ۔
گجرات کے مقابلہ میں آندھرا پردیش ‘ مہاراشٹرا اور دوسری ریاستوں نے کئی شعبوں میں سبقت حاصل کرلی ہے ۔ جب حالات کو دیکھتے ہوئے عام آدمی پارٹی کی جانب سے گجرات کی ترقی کے دعووں کا بھانڈا پھوڑنے کیلئے اروند کجریوال نے گجرات کا دورہ کیا تو ایسا محسوس ہوا جیسا گجرات کی سرزمین پر بھونچال آگیا ہو۔ کوئی اور بہانہ نہ مل سکا تو ٹریفک جام کے نام پر نہ صرف کجریوال کو گرفتار کیا گیا بلکہ ان کے قافلے پر حملہ بھی کردیا گیا ۔ یہ بی جے پی کے خوف کا ایک ثبوت ہے جو اسے عام آدمی پارٹی سے محسوس ہونے لگا ہے ۔ مودی کی ریاست میں مقامی عوام نے جس طرح سے کجریوال کی حمایت کا اظہار کیا اس سے بھی بی جے پی کی صفوں میں سنسنی سی پھیل گئی تھی ۔
جس وقت سے دہلی میں عام آدمی پارٹی کو اسمبلی انتخابات میں کامیابی ملی تھی اس وقت سے ہی بی جے پی کو محسوس ہونے لگاتھا کہ نریندر مودی کیلئے گجرات سے دہلی تک کا سفرآسان نہیں ہوگا ۔ اسی لئے بی جے پی کے پالیسی سازوں اور ذمہ داروں نے مل بیٹھ کر عام آدمی پارٹی کی عوامی مقبولیت کا توڑ دریافت کرنے اور اسے نشانہ بنانے کی مہم کا آغاز کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ یہی وجہ رہی کہ اس کے بعد سے مودی اور ان کے حواریوں کی جانب سے کجریوال اور ان کے طرز حکومت کونشانہ بنایا جانے لگا ۔ پارٹی پر طرح طرح کے الزامات عائد کئے جانے لگے ہیں۔ پارٹی کو یہ احساس ہوچکا ہے کہ عام آدمی پارٹی میں وہ طاقت ضرور ہے جو مودی کو دہلی کے تخت پر براجمان ہونے سے روک سکتی ہے ۔ اسی احساس نے بی جے پی اور اس کے کارکنوں میں عام آدمی پارٹی کے خوف میں مزید اضافہ کردیا ہے ۔ اس کی مثال گجرات میں مودی کے دورہ کے موقع پر کئے گئے حملے سے ملتی ہے ۔ حالانکہ اس حملے کے جواب میں عام آدمی پارٹی کے کارکنوں نے دہلی اور لکھنو میں بی جے پی کے دفاتر کے روبرو احتجاج کیا جو بعد میں پرتشدد موڑ اختیار کرگیا لیکن اس کیلئے بی جے پی کے کارکنوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے جنہوں نے احتجاجیوں پر حملہ کرنے کی کوشش کی اور ان پر سنگباری کی تھی ۔ اب پولیس کی جانب سے عام آدمی پارٹی کے کارکنوں اور قائدین پرمقدمات درج کئے جارہے ہیں اور پوچھ تاچھ کیلئے انہیں گرفتار کیا جارہا ہے ۔
قانونی طور پر جو کارروائی کی جارہی ہے اس کا قانونی جواب دیا جائیگا اور عدلیہ میں اس تعلق سے فیصلہ ہوگا ۔ اس پر یہاں مباحث کی ضرورت نہیں ہے لیکن ایک سوال ضرور عوام کے ذہنوں میںپیدا ہونے لگا ہے کہ اگر گجرات کی ترقی کے بلند بانگ دعوے درست ہیں تو پھر مودی کے حواریوں نے کجریوال کو گجرات کا دورہ کرنے سے روکنے کی کوشش کیوں کی ؟ ۔ ان پر حملہ کیوں کیا گیا ۔ ان کے قافلے کو کیوں روکا گیا ۔ اب یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ عام آدمی پارٹی کے کارکن تشدد پر اتر آئے ہیں۔ یہ ہوسکتا ہے کہ کچھ کارکنوں نے غلطی کی ہو لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عام آدمی پارٹی کارکنوں کو اکسانے میں بی جے پی کے کارکنوں ہی کا ہاتھ ہے ۔ اس کی شروعات بی جے پی نے ہی کی ہے کیونکہ اسے یہ خوف ہوگیا کہ کجریوال دہلی کی طرح گجرات میں بھی ترقی کے دعووں کی قلعی کھول دینگے اور مودی کا جھوٹ سارے ملک پر ظاہر ہوجائیگا۔