بی سی کمیشن کا قیام اور تحفظات کی سفارش کے بغیر مسلمانوں کی ترقی نہیں ہوسکتی
تحفظات کیلئے مسلمانوں کی پرامن تحریک سارے ملک کیلئے مثال
ریاست تلنگانہ میں ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں نے مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات کی فراہمی کے لئے جو تحریک شروع کی ہے وہ ریاست کے کونے کونے میں پہنچ گئی ہے۔ مسلمانوں کو اندازہ ہوگیا ہے کہ ملازمتوں اور تعلیمی شعبہ میں 12 فیصد تحفظات کی فراہمی سے سرکاری ملازمتوں اور پیشہ ورانہ تعلیمی کورسیس میں ہزاروں اور لاکھوں مسلمانوں کے لئے مواقع فراہم ہوں گے جس کے نتیجہ میں ان کی معاشی اور تعلیمی حالت بہتر ہوگی۔ ملک کے دیگر مقامات بالخصوص گجرات میں پٹیلوں، ہریانہ میں جاٹوں، راجستھان میں گجروں اور آندھرا میں کاپوؤں نے تحفظات کے لئے جو تحریکیں چلائی ہیں وہ تشدد سے پُر رہیں۔ جن میں لاکھوں کروڑ روپئے مالیتی سرکاری و خانگی املاک تباہ و برباد کردی گئیں۔ بے شمار انسانی جانوں کا اتلاف ہوا۔ حد تو یہ ہے کہ احتجاجی مظاہروں کے دوران درجنوں خواتین کی عصمت ریزی بھی کی گئی۔ ہریانہ میں جاٹوں نے احتجاجی مظاہروں سے ہونے والے نقصان کے بارے میں بتایا گیا کہ ان احتجاجی مظاہروں سے 34 ہزار کروڑ روپئے کا نقصان ہوا ہے۔ 21 فروری کو منظر عام پر آئی ایک اور رپورٹ کے مطابق 20 ہزار کروڑ روپئے کے نقصانات ہوئے ہیں۔ 30 سے زائد افراد مارے گئے۔ کم از کم دس خواتین کی عصمتوں کو تار تار کیا گیا۔ اس احتجاج سے پنجاب، ہماچل پردیش، راجستھان اور اترپردیش کو بھی زبردست مالی نقصانات سے دوچار ہونا پڑا۔ صرف ریلویز کو 55.92 کروڑ روپئے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ راجستھان میں گجروں کے احتجاجی مظاہروں نے ریلوے کو یومیہ 15 کروڑ روپئے کا نقصان پہنچایا ہے۔ ساحلی آندھرا میں کاپوؤں کے احتجاج نے زبردست تباہی مچائی اور ہزاروں کروڑ روپئے کے نقصانات ہوئے۔ گجرات میں بھی 50 ہزار کروڑ روپئے کے نقصانات کا اندازہ لگایا گیا ہے جبکہ تلنگانہ میں مسلمان تحفظات کے لئے انتہائی پرامن انداز میں تحریک چلارہے ہیں تاحال حکومت یا عوام کو ایک پیسے کا بھی نقصان نہیں ہوا۔
حیدرآباد۔ یکم مئی (نمائندہ خصوصی) تلنگانہ ریاست میں مسلمانوں کو تحفظات کی فراہمی کے مسئلہ پر جو تحریک چلائی جا رہی ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ ریاست میں بی سی کمیشن قائم کرکے مسلمانوں کی معاشی ‘ سماجی اور تعلیمی پسماندگی کی بنیاد پر بی سی کمیشن سے تحفظات کی سفارش حاصل کی جائے اور اگر بی سی کمیشن کی سفارش کی بنیاد پر مسلمانوں کو تحفظات فراہم کئے جاتے ہیں تو وہی دیرپا ہوسکتے ہیں اور انہیں سے مسلمانوں کی حقیقی معنوں میں ترقی ہوسکتی ہے ۔ بی سی کمیشن ہی وہ واحد مجاز کمیشن ہوسکتا ہے جس کی سفارش پر مسلمانوں کو تحفظات فراہم ہوسکتے ہیں اور انہیں عدالتی کشاکش سے بھی بچایا جاسکتا ہے ۔ چیف منسٹر مسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے علیحدہ تلنگانہ تحریک کے دوران اور پھر اسمبلی انتخابات سے قبل ریاست کے مسلمانوں کو تعلیم اور روزگار میں 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ خود ٹی آر ایس کے انتخابی منشور میں دیگر وعدوں کے علاوہ ریاست کی مسلم اقلیت کو تعلیم اور روزگار کے شعبوں میں 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کی بات کہی تھی۔ ساتھ ہی یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ ریاست میں موجود لاکھوں کروڑ روپئے مالیتی موقوفہ جائیدادوں کا ہر حال میں تحفظ کیا جائے گا۔ مسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے ببانگ دہل یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ اقتدار حاصل ہونے کے اندرون چار ماہ مسلمانوں کو جو پہلے ہی سے ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی حکومت کے فراہم کردہ 4 فیصد تحفظات کے ثمرات حاصل کررہے ہیں، 12 فیصد تحفظات فراہم کئے جائیں گے لیکن ریاست میں اقتدار حاصل کرنے کے دو سال بعد بھی وہ اپنے وعدوں کی تکمیل میں ناکام ہوگئے جس پر ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں اور نیوز ایڈیٹر جناب عامر علی خاں کو مسلمانوں کے لئے 12 فیصد تحفظات کی فراہمی کے لئے ایک تحریک شروع کرنے پر مجبور ہونا پڑا جس کے باعث آج تلنگانہ کے چپہ چپہ میں مسلمان 12 فیصد تحفظات کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر پرامن تحریک چلارہے ہیں۔ اب اس تحریک میں ریاستی کانگریس پارٹی بھی شامل ہوگئی ہے۔ کانگریس کے اقلیتی قائدین نے سیاست کی تحریک سے ترغیب پاکر مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات کیلئے 10 لاکھ دستخطیں حاصل کرنے کی مہم شروع کی ہے۔ نیوز ایڈیٹر سیاست جناب عامر علی خاں کے مطابق کے سی آر حکومت نے مسلمانوں کی پسماندگی کا جائزہ لینے سابق بیورو کریٹ بی سدھیر کی قیادت میں سدھیر کمیٹی تشکیل دی ہے اور اس کمیٹی کی میعاد میں حالیہ عرصہ کے دوران توسیع پر توسیع کی جارہی ہے۔ کے سی آر چاہتے ہیں کہ سدھیر کمیٹی کی رپورٹ وصول ہونے کے بعد ریاستی اسمبلی میں مسلم تحفظات کے لئے ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے اسے مرکزی حکومت کو روانہ کی جائے لیکن جناب عامر علی خاں کی طرح مسلمانوں کا یہ کہنا ہے کہ مرکز میں نریندر مودی کی زیرقیادت بی جے پی حکومت ہے اور وہ کسی بھی حال میں مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دینے کی تائید و حمایت نہیں کرے گی۔ اس طرح یہ اہم ترین مسئلہ ہمیشہ کے لئے ایک مسئلہ ہی بنا رہے گا۔ مسلمان چاہتے ہیں کہ کے سی آر حکومت مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات کے لئے بی سی کمیشن تشکیل دے اور اس کے تحت انھیں 12 فیصد تحفظات فراہم کئے جائیں تاکہ مستقبل میں قانونی پیچیدگیوں سے بچا جاسکے۔ جناب عامر علی خاں اور ریاست کی مسلم آبادی کا یہی موقف ہے کہ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ اپنے وعدہ کو وفا کرنے کے لئے عزم و حوصلہ سے کام لیں۔ اگر وہ مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو نہ صرف تلنگانہ بلکہ سارے ملک کی تاریخ میں ان کا نام سنہری الفاظ میں اور مسلمانوں کے ہمدرد کی حیثیت سے لکھا جائے گا۔ مسٹر چندرشیکھر راؤ کو یہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ جسٹس رنگناتھ مشرا کمیشن نے مرکزی حکومت کو جو سفارشات پیش کی تھیں ان میں ایک سفارش یہ بھی تھی کہ مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے کے لئے انھیں دس فیصد اور دیگر اقلیتوں کو 5 فیصد تحفظات دیئے جائیں۔ مسٹر چندرشیکھر راؤ کے لئے حکومت گجرات کا بھی حالیہ فیصلہ ایک سبق ہے۔ آنندی بین پٹیل حکومت نے معاشی اعتبار سے انتہائی مستحکم پٹیلوں کو تعلیم اور ملازمتوں میں 10 فیصد تحفظات دینے کا اعلان کیا جس پر یکم مئی سے عمل آوری بھی کی جائے گی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آنندی بین پٹیل نے پٹیلوں اور برہمنوں کے علاوہ اعلیٰ ذات کے جن طبقات کو 10 فیصد تحفظات دینے کا اعلان کیا ان کے لئے سالانہ حد آمدنی 6 لاکھ روپئے مقرر کی ہے۔ اس طرح گجرات میں ماہانہ 50 ہزار روپئے آمدنی کے حامل خاندانوں کو جو یقینا خوشحال ہیں، تحفظات فراہم کئے جارہے ہیں جبکہ ریاست تلنگانہ میں 80 فیصد مسلمانوں کی سالانہ آمدنی 60 ہزار روپئے سے بھی کم ہے۔ اس کے علاوہ گجرات کی بی جے پی حکومت نے پٹیلوں اور برہمنوں کیلئے دس فیصد تحفظات کی فراہمی میں یہ بھی نہیں دیکھا کہ ریاست میں پہلے ہی سے درج فہرست طبقات و قبائیل اور او بی سیز کو 49 فیصد تحفظات دیئے جارہے ہیں۔ جبکہ سپریم کورٹ نے تحفظات کی حد 50 فیصد مقرر کی ہے۔ پٹیلوں اور برہمنوں کو 10 فیصد تحفظات کی فراہمی سے گجرات میں تحفظات کا کوٹہ 59 فیصد ہوجائے گا۔ ایسے میں چیف منسٹر تلنگانہ کو بھی بناء خوف و خطر مسلمانوں کو جلد سے جلد 12 فیصد تحفظات کی فراہمی کا اعلان کرنا چاہئے تاکہ پچھلے دو برسوں کے دوران ہندوستانی معاشرہ کے اس سب سے غریب طبقہ میں جو بے چینی پھیلی ہوئی ہے وہ اس بے چینی کا خاتمہ ہوجائے۔ گجرات میں پٹیلوں کو دیئے جارہے تحفظات تلنگانہ کی حکومت کیلئے ایک بہترین مثال ہے۔ صرف کے سی آر کو عزم و حوصلہ کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اگر وہ ریاست کے پرامن اور غریب مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرتے ہیں تو مستقبل میں کے سی آر حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔