بی جے پی اور کانگریس ٹکٹوں کی تقسیم میں کمیونٹی پالیٹکس کا عنصر نمایاں ۔ ووٹوں کے تناسب میں 4 تا 5 فیصد بدلاؤ اقتدار بدل سکتا ہے
احمدآباد ؍ راجکوٹ ۔ 5 ڈسمبر۔ ( سیاست ڈاٹ کام ) ذات پات کا عنصر گجرات اسمبلی چناؤ میں بدستور سیاسی اہمیت کا برقرار رہنے کاامکان ہے کیونکہ ذات پات کی بنیاد پر مختلف تحریکیں اُبھر آئی ہیں اور اسی تناظر میں بڑی پارٹیوں نے ٹکٹوں کی تقسیم کی ہے ۔ پہلے مرحلے کی پولنگ 9 ڈسمبر کو مقرر ہے جس کے قریب آتے آتے مندر کی سیاست بھی اُبھرنے لگی ہے ۔ خاص طورپر جن اضلاع کا پہلے مرحلے میں احاطہ کیا جائے گا وہاں پاٹیداری کمیونٹی کی تعمیرکردہ دو مندروں کو سیاسی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ ان مندروں کے دو ٹرسٹیز دنیش چواتیا اور روی بھائی امبالیہ ترتیب وار راجکوٹ ساؤتھ اور جیتپور سے کانگریس ٹکٹوں پر چناؤ لڑ رہے ہیں ۔ ایک اور ٹرسٹی گوپال بھائی وسطیٰ پارہ امبریلی ضلع میں لاٹھی بابرہ سے بی جے پی ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں ۔ اس مرتبہ بی جے پی اور کانگریس دونوں نے ذات پات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ٹکٹیں تقسیم کئے ہیں ۔ پاٹیدار اور دیگر پسماندہ طبقات ( او بی سیز) کے دونوں پارٹیوں کی طرف سے سب سے زیادہ ٹکٹ حاصل ہوئے ہیں۔ بی جے پی نے 50 پاٹیدار افراد کو نامزد کیا ہے جبکہ کانگریس نے اس کمیٹی سے 41 امیدوار انتخابی میدان میں اُتارے ہیں۔ برسراقتدار پارٹی نے 58 او بی سیز کو ٹکٹ دیئے جبکہ کانگریس نے ایسے 62 امیدوار نامزد کئے ہیں۔
بڑی اپوزیشن پارٹی نے 14 دلتوں کو ٹکٹ دیئے جبکہ بی جے پی نے 13 دلت امیدوار بنائے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق یہ اسمبلی چناؤ 4 تا 5 فیصد اضافی ووٹ تناسب پر منحصر ہے جس سے کسی بھی پارٹی کو فیصلہ کن جیت حاصل ہوسکتی ہے ۔ بی جے پی اس قدر تناسب سے محروم ہونے کی متحمل نہیں ہوسکتی جبکہ کانگریس بھرپور کوشش کررہی ہے کہ مختلف ذاتوں کو راغب کرتے ہوئے کچھ اضافی ووٹ حاصل کرلئے جائیںاور وہ بی جے پی حکومت سے برہم ووٹروں کا فائدہ اُٹھانا چاہتی ہے ۔ سیاسی تجزیہ نگار اچیوت یاگنک کا کہنا ہے کہ محض 4 تا 5فیصد ووٹوں کے اُلٹ پھیر سے سارا سیاسی کھیل بدل سکتا ہے ۔ تاہم اُن کا ماننا ہے کہ کانگریس کو اس مرتبہ چند اضافی نشستیں حاصل ہونے کی قوی توقعات ہیں لیکن یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ وہ اقتدار پر قابض ہوسکے گی ، حالانکہ ذات پات کے نمائندہ قائدین ہاردیک پٹیل ، الپیش ٹھاکر اور جگنیش میوانی کانگریس کی تائید و حمایت کررہے ہیں۔ 2002 ، 2007 اور 2012 ء کے انتخابات میں مختلف پارٹیوں کو محصلہ ووٹوں کے تناسب پر نظر ڈالیں تو کانگریس نے لگ بھگ 40 فیصد ووٹ حاصل کئے جبکہ بی جے پی کو ہر بار 49 فیصد ووٹ ملے ۔ چنانچہ اب 4 تا 5 فیصد کا بدلاؤ کانگریس کو قابل لحاظ فائدہ پہونچا دے گا ۔ یاگنک کاکہنا ہے کہ گجرات کی سیاست میں ذات پات کا عنصر اب بھی بہت اہمیت رکھتا ہے اور ٹکٹوں کی تقسیم اُسی کے مطابق ہوئی ہے ۔ بی جے پی تمام 182 اسمبلی نشستوں پر انتخاب لڑ رہی ہے جبکہ کانگریس نے 6 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے نہیں کئے جن میں سے پانچ بھارتیہ ٹرائیبل پارٹی کو دیئے گئے اور ایک نشست وہ ہے جہاں سے میوانی آزاد امیدوار کے طورپر لڑ رہے ہیں ۔ ایک اور سیاسی تجزیہ نگار گھنشام شاہ کا تاثر ہے کہ کانگریس کو فی الحال برتری حاصل ہے ۔