ترے سِوا بھی کہیں، تھی پناہ بُھول گئے
نِکل کے ہم تِری محفل سے راہ بُھول گئے
گجرات اور بی جے پی
حکومت چلانے کیلئے صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے مگر بعض معاملوں میں صلاحیت کو نظرانداز کردیا جائے تو حکومت کاڈھانچہ بھی بگڑ جاتا ہے ۔ گجرات میں جب تک ایک سینئر اڈمنسٹریٹر کاتقرر نہیں ہوتا اس وقت تک حالات ابتر ہی رہیں گے ۔ برسوں سے اس ریاست کی سیاسی ، سماجی اور معاشی سوچ کو مختلف سیاستدانوں کی پالیسیوں کے تابع بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ گجرات اور گجراتیوں کی صلاحیتوں سے ہرکوئی واقف ہے مگر اس کے عوام کی بدنصیبی ہے کہ ان کی شاندار صلاحیتوں اور تجارت و صنعت میں کامیابی کا ریکارڈ بنانے کی خوبیوں کے باوجود یہ لوگ انسانی اقدار کی بلندیوں پر اپنا نام درج کرانے میں بعض سیاستدانوں کی وجہ سے پیچھے رہے ہیں۔ اس مرتبہ بی جے پی کی چیف منسٹر آنندی بین نے حکومت چھوڑکر نئے لیڈر کے لئے راہ ہموار کی ہے ۔ گجرات میں جب تک نریندر مودی تھے کسی کو آواز اُٹھانے کی اجازت نہیں تھی ۔ بی جے پی میں نریندر مودی ہی فیصلہ کن اختیارات کے حامل بن گئے اُس لئے اُن کے بعد دیگر قائدین کی اہمیت ثانوی بن جاتی ہے ۔ گجرات میں مودی کے بعد ایک خاتون کو چیف منسٹر بناکر یہ سوچا گیا تھا کہ اس خاتون کے ذریعہ نریندر مودی اپنی ریاست کی ذمہ داری سنبھالنے میں کامیاب ہوں گے مگر گزشتہ دو سال کے دوران گجرات میں سیاسی اُتھل پتھل کا باعث بننے والے واقعات رونما ہونے لگے ۔ پٹہ دار طبقہ نے ہردیک پٹیل کو اپنا لیڈر بناکر تحفظات کے لئے زبردست احتجاج شروع کیا تو اب دلتوں پر مظالم کا سلسلہ شروع ہوا ۔ دلتوں نے ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے کے ساتھ سڑکوں پر نکل کر حکومت کے خلاف اپنی ناراضگی کا شدید مظاہرہ کیا۔ گجرات کی معاشی حالت مستحکم ہے ، عوام بھی صرف اوپری سطح تک خوش ہیں یا باقی عوام کی صورتحال بھی ابتر ہے ۔ پینے کا پانی دستیاب نہیں ، برقی کا مسئلہ اور روزگار فراہم کرنے والی صنعتوں میں تعصب پسندی پائی جاتی ہے ۔ مسلمانوں کے ساتھ انتہائی نفرت آمیز پروپگنڈہ پھیلاکر اپنا سیاسی مقصد حاصل کرنے میں کامیاب بی جے پی کو اب اس ریاست میں سیاسی کمزوریوں کی ارتھی اُٹھانے میں بھی مشکل درپیش ہوگی ،کیوں کہ آنے والے دنوں میں گجرات کے سیاسی حالات اگر بی جے پی کے غیرموافق ہوجائیں تو مرکز میں بھی مودی قیادت بھی کچھ کام نہ آسکے گی بلکہ گجرات سے طاقتور ہوکر نکلنے والے لیڈروں کو اسی ریاست کی وجہ سے قومی سطح پر کمزوری کا سامنا کرنا پڑے گا ۔آنندی بین کے بعد بی جے پی ایک مضبوط لیڈر کو منتخب کرے گی اور مضبوط لیڈر اس وقت خود صدر بی جے پی کو سمجھا جارہا ہے ، ہوسکتا ہے کہ صدر بی جے پی امیت شاہ گجرات کے چیف منسٹر بن جائیں۔ گجرات کی سیاسی دیوار پر اب امیت شاہ کی تصویر اویزاں کی جائے گی تو 2014 ء میں گجرات چھوڑکر قومی قیادت سنبھالنے والے موی کو ایک مضبوط لیڈر تو مل جائے گا لیکن کارکردگی کے معاملہ میں عوام کی پسند اور ضرورتوں پر کھرے نہ اُتریں تو پھر آنے والے انتخابات میں مخالف بی جے پی طاقتوں کو اُبھرنے کا موقع مل سکتا ہے ۔صرف دو سال کے اندر ہندوتوا پریوار میں بغاوت کا محاذ کھل چکا ہے ۔ گجرات کی ترقی کا سارے ملک کو ماڈل بناکر پیش کرنے کا تصور ختم ہوگیا ہے۔ عوام میں مایوسی تیزی سے پھیلتی جارہی ہے ، سماجی بدامنی اور بے چینی نے تجارت پسند عوام کی اکثریت والی ریاست کو مضطرب کردیا ہے۔ گزشتہ 15 سال سے اقتدار سے محروم کانگریس کو اپنی ساکھ مضبوط بنانے کا یہ اچھا موقع ہاتھ آیا ہے مگر اس کی قیادت اس موقع سے فائدہ اُٹھاسکے گی یہ وقت ہی بتائے گا ۔ گجرات میں مودی کے اقتدار پر آنے سے قبل تک سیاسی استحکام کا مسئلہ تھا ۔ بی جے پی ایک کمزور پارٹی تھی ، چیف منسٹر کے عہدہ پر کسی بھی لیڈر نے اپنی معیاد پوری نہیں کی صرف مودی ہی نے دو معیاد مکمل کئے تھے۔ پارٹی میں ڈسپلن شکنی کا چلن پہلے ہی سے برقرار ہے اب آنندی بین کا استعفیٰ یا انھیں ہٹادیئے جانے کے بعد گجرات میں گروہ واریت دوبارہ سر اُٹھائے گی ۔ وفاداروں اور باغیوں کے ٹولے پھر سرگرم ہوں گے ۔ گجرات میں ایک طرف پٹہ دار پٹیل برداری کا غم و غصہ ہے تو دوسری طرف دلتوں نے حکومت کے خلاف مورچہ سنبھال لیا ہے ۔ ایسے میں آنندی بین کی جگہ امیت شاہ اور کوئی لیڈر آتا ہے تو اس کے لئے گجرات کے حالات ایک سخت آزمائش سے کم نہیں ہوں گے ۔ جو بھی لیڈر ہوگا اس کی سیاسی صلاحیتوں کو پرکھا جائے گا ۔ اب گجرات نریندر مودی کے لئے ایک وقار کا مسئلہ بن گیا ہے ۔ بلکہ گجرات ان کی قومی شناخت اور استحکام کی بنیاد ہوگی اگر یہ بنیاد کمزور پڑجائے تو مرکز میں بھی مودی کا گراف گھٹنا شروع ہوگا ۔