گاڑیوں پر امتناع کے سبب تقریباً 3 ہزار کروڑ کا نقصانBS III

خصوصی ڈسکاؤنٹس کے ذریعہ 30 فیصد ٹو وہیلرس کی فروخت ، کمرشیل وہیکلس کو زیادہ خسارہ ، کریسل رپورٹ
نئی دہلی 3 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) BS III گاڑیوں پر سپریم کورٹ کے امتناع کی وجہ سے کمرشیل وہیکلس اور ٹو وہیلرس تیار کرنے والی کمپنیوں کو تقریباً 3,000 کروڑ روپئے کا نقصان ہوا۔ مارکٹ ریسرچ فرم کریسل نے اپنی رپورٹ میں یہ بات بتائی اور کہاکہ امتناع کی وجہ سے کمرشیل وہیکلس تیار کرنے والی کمپنیوں کو 2,500 کروڑ جبکہ ٹو وہیلرس تیار کرنے والی کمپنیوں کو 460 تا 480 کروڑ کا نقصان ہوا۔ سپریم کورٹ نے BS III گاڑیوں کے استعمال پر یکم اپریل 2017 ء سے امتناع عائد کردیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ کمرشیل وہیکلس تیار کرنے والی کمپنیوں کو اپنے ذخیرہ کا تقریباً نصف ضائع کرنا پڑا۔ جن گاڑیوں کو 31 مارچ 2017 ء تک ڈسکاؤنٹس اور دیگر مراعات کے ذریعہ فروخت کیا گیا اُن پر بھی تقریباً 1200 کروڑ روپئے کے خسارہ سے دوچار ہونا پڑا۔ اس کے علاوہ جو گاڑیاں فروخت نہیں ہوسکیں، اُن کے ناکارہ ہوجانے کی وجہ سے تقریباً 1300 کروڑ روپئے مزید خسارہ ہوا۔ بتایا گیا ہے کہ ٹرکس تیار کرنے والی کمپنیوں (اشوک لی لینڈ اور ٹاٹا موٹرس) کو اُن کی آمدنی کا تقریباً 2.5 فیصد خسارہ برداشت کرنا پڑا۔ اس کا اثر مالی سال 2017 اور 2018 پر مرتب ہوگا کیوں کہ فروخت نہ ہونے والی گاڑیوں کو ڈیلرس کے پاس سے واپس لانا اور پھر اس صورتحال سے نمٹنا ہوگا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرکردہ کمرشیل وہیکلس تیار کرنے والی کمپنیوں نے مارچ تک BS III گاڑیوں کی تیاری جاری رکھی کیوں کہ اُنھیں مالی سال کے اختتام پر زیادہ سے زیادہ خریداری کی توقع تھی۔ اس کے علاوہ BS IV گاڑیوں کی قیمت میں 8 تا 10 فیصد اضافہ کے سبب اِن کمپنیوں نے یہ اندازہ کیا تھا کہ BS III گاڑیاں زیادہ سے زیادہ فروخت ہوں گی۔ یہاں تک کہ اِن کمپنیوں کو یہ توقع بھی تھی کہ چند BS III ٹرکس کو اپریل میں بھی فروخت کیا جاسکے گا لیکن سپریم کورٹ کا فیصلہ آتے ہی اِن تمام توقعات پر پانی پھر گیا اور کمرشیل وہیکلس ڈیلرس کی تقریباً 97 ہزار گاڑیوں کے بارے میں سوال کھڑا ہوگیا جن کی مالیت 11,600 کروڑ روپئے تھی۔ اِس شعبہ سے وابستہ صنعت نے مارچ کے آخری تین دن میں تقریباً 35 فیصد گاڑیاں فروخت کی اور اس کے لئے 20 تا 40 فیصد ڈسکاؤنٹ کی پیشکش کی گئی تھی۔ اس ڈسکاؤنٹ کے علاوہ مینوفکچررس کو 80 فیصد اور پھر مابقی 20 فیصد کا بوجھ ڈیلرس کو برداشت کرنا پڑے گا۔ جہاں تک رُکی ہوئی گاڑیوں کا تعلق ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تقریباً 40 ہزار تا 45 ہزار گاڑیوں کو آئندہ چند ماہ کے دوران واپس لا لیا جائے گا۔ کمپنیاں اسے دوبارہ فروخت کرنے کے لئے اپ گریڈ کرسکتی ہیں یا پھر گاڑی کو ختم کرتے ہوئے اس کے فاضل پرزے استعمال میں لائے جاسکتے ہیں یا پھر اِن گاڑیوں کو دوسرے ممالک برآمد کیا جاسکتا ہے جس کے لئے پانچ تا چھ ماہ درکار ہوں گے۔ ٹو وہیلرکے معاملہ میں کریسل ریسرچ نے بتایا کہ جب سپریم کورٹ کا فیصلہ سامنے آیا اُس وقت 670,000 گاڑیوں کو جوکھم تھا جن کی مالیت3,800 کروڑ روپئے ہے ، لیکن بھاری ڈسکاؤنٹ کے ذریعہ آخری تین دن کے دوران تقریباً 30 فیصد گاڑیاں فروخت کردی گئیں۔