آر ایس ایس کو اپنا دستور تیار کرنے پٹیل کا مشورہ ‘ جنتادل (یو) کے ترجمان کے سی تیاگی کا بیان
نئی دہلی، 28 اگست (سیاست ڈاٹ کام ) جنتا دل یونائیٹڈ نے کہا ہے کہ بابائے قوم مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد اس وقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ سداشیو گولوالکر اور جن سنگھ کے صدر شیاما پرساد مکرجی کو خط لکھ کرآر ایس ایس اور ھندوسبھا پر تنقید کی تھی اور کہا تھا ان تنظیموں نے معاشرے میں فرقہ واریت کا ایسا زہر گھولا جس کی وجہ سے گاندھی جی شہید ہوئے تھے ۔پارٹی کے ترجمان کے سی تیاگی نے یواین آئی سے بات چیت میں کہا کہ ناتھورام گوڈسے آر ایس ایس کے رضاکار تھے اور آر ایس ایس کی طرف سے فرقہ وارانہ زہر پھیلانے کی وجہ سے ہی پٹیل نے آر ایس ایس پر پابندی عائد کر دی تھی لیکن آج کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی کے معاملے میں یہ الجھن پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آر ایس ایس یاہندو مہا سبھا کا اس میں کوئی ہاتھ ہی نہیں تھا۔ تیاگی نے کہا کہ راہل گاندھی نے عدالت میں کیا کہا اور اس کے باہر کیا کہا وہ اس تنازع میں جانا نہیں چاہتے کیونکہ یہ ایک تکنیکی معاملہ ہے لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ پٹیل نے گاندھی جی کے قتل کے تین دن بعد ہی 4 فروری 1948 کو آر ایس ایس پر پابندی عائد کر دی تھی۔ پٹیل نے 19 ستمبر 1948 کو سداشیو گولوالکر کو لکھے خط میں صاف لکھا تھا، ہندوؤں کی مدد کرنا تنظیم کے لئے ایک بات ہے مگر ان کی مصیبتوں کا بدلہ نھتے اور لاچار عورتوں، بچو اور آدمیوں سے لینا دوسری بات ہے ۔ ان کی ساری تقریریں فرقہ وارانہ منافرت سے بھری تھیں۔ ہندوؤں میں جوش پیدا کرنا اور ان کی حفاظت کے لئے یہ ضروری نہیں تھا کہ ایسا زہر پھیلایا جائے ۔ اس زہر کا پھل آخر میں یہی ہوا کہ گاندھی جی کی قیمتی قربانی ملک کو برداشت کرنی پڑی۔
تیاگی نے یہ بھی بتایا کہ پٹیل نے تو گاندھی جی کے قتل کے ساڑھے پانچ ماہ بعد 18 جولائی 1948 کو شیاما پرساد مکھرجی کو خط لکھ کر کہا تھا کہ آر ایس ایس اور ہندو سبھا کی بات کو لیں تو گاندھی جی کے قتل کا معاملہ کورٹ میں ہے اور مجھے ان دونوں تنظیموں کے ملوث ہونے کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہئے لیکن ہمیں ایسی رپورٹ ملی ہے کہ ان دونوں اداروں بالخصوص آر ایس ایس کی سرگرمیوں کی وجہ سے ملک میں ایسا ماحول بنا کہ ایسا وحشیانہ سانحہ رونما ہو سکا۔ میرے دماغ میں کوئی شک نہیں کہ ہندو مہاسبھا کا انتہا پسند حصہ اس سازش میں شامل تھا۔جب آر ایس ایس نے پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا تو پٹیل نے کہا کہ پہلے آپ اپنا آئین تیار کریں، تب بالا صاحب دیورس ایکناتھ راناڈے اور پی بی دھاتي نے آر ایس ایس کا ایک تحریری آئین تیار کیا تھا۔ پٹیل نے جون 1849 میں ان کے آئین کو منظوری دے دی اور 11 جولائی کو آر ایس ایس سے پابندی ہٹا لی تھی لیکن آج پھر آر ایس ایس کے لوگ ملک میں فرقہ وارانہ ماحول بنانے میں لگے ہیں۔ اتر پردیش کے انتخابات کے پیش نظر یہ سب کیا جا رہا ہے ۔ نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے فرقہ وارانہ صف بندی کی کوششیں تیز ہو گئیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ مودی حکومت میں آر ایس ایس سے وابستہ لوگوں کو اہمیت دی جا رہی ہے اور آر ایس ایس کے لوگ جھوٹ اور پروپیگنڈہ کے بل پر ہی ٹکے ہیں۔ ان کے اس فرضی قوم پرستی کو اجاگر کرنا ضروری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پٹیل فرقہ واریت اور ہندو راشٹر کے خلاف تھے لیکن آج بی جے پی اور آر ایس ایس پٹیل پر ہی قبضہ کرنے میں لگا ہے اور ان کی غلط تصویر پیش کر رہا ہے ۔