حیدرآباد۔/30جنوری، ( سیاست نیوز) ملک بھر میں بابائے قوم مہاتما گاندھی کی 70 ویں برسی پُراثر انداز میں منائی گئی، ملک کی دیگر ریاستوں کی طرح تلنگانہ میں بھی گاندھی جی کی برسی کے ضمن میں یوم شہیداں منایا گیا اور 11 بجے دن تمام مقامات پر دو منٹ کی خاموشی منائی گئی۔ 2 اکٹوبر 1869 کو گجرات کے پور بندر میں پیدا ہوئے، موہن داس کرمچند گاندھی کے بارے میں یہ نہیں سوچا گیا تھا کہ وہ ایک دن ساری دنیا میں حریت پسندوں کیلئے عدم تشدد کی علامت بن جائیں گے۔ گاندھی جی ہندوستان کی تحریک آزادی کے نقیب تھے ، وہ ایک کٹر ہندو تھے اور انسانیت پر ان کا ایقان تھا۔ انہوں نے زندگی بھر نسلی امتیاز اور ذات پات کے بھید بھاؤ اور ہندو مسلم اتحاد کیلئے کام کیا۔ ملک کی تقسیم کے بعد جب ہندوستان کے مختلف علاقوں میں فسادات پھوٹ پڑے مسلمانوں کے قتل کئے جانے لگے تب گاندھی جی نے مرن برت شروع کیا۔ ان کا مقصد مذہبی تشدد کی وباء کو روکنا تھا۔ گاندھی جی کی عدم تشدد پالیسی ، انسانیت نوازی، چھوت چھات کے خلاف آواز اُٹھانا اُن فرقہ پرستوں کو پسند نہیں آیا جو تحریک آزادی کے دوران ظالم انگریزوں کے تلوے چاٹنے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ خود کو ہندوؤں کے کاز کے چمپین کہلانے والے ان عناصر نے نہ صرف تحریک آزادی کو نقصان پہنچایا بلکہ انگریزوں کی مخبری کی اور مجاہدین آزادی کے خلاف انگریزوں کے گواہ معافی یافتہ بن گئے۔ اگر ان عناصر کو غدارانِ وطن کہا جائے تو کچھ غلط نہیں ہوگا چنانچہ وطن کے ان ہی غداروں میں سے ایک ناتھو رام گوڈسے نے 30جنوری 1948ء کو شام 5 بجکر 17منٹ پر بالکل قریبی فاصلہ سے بریٹا 9 ایم ایم پستول سے گاندھی جی پر گولیاں چلا دی، تین گولیاں ان کے سینے میں پیوست ہوگئیں اور 78 سالہ مہاتما گاندھی زمین پر ڈھیر ہوگئے۔ اس طرح خود کو قوم پرست کہلانے والا ناتھو رام گوڈسے ہندوستان کے پہلے دہشت گرد کی حیثیت سے منظرِ عام پر آیا۔ اُس تاریخ سے آج تک ناتھو رام گوڈسے کی نسل اور اسے چاہنے والے مذہب کے نام پر عوام کو تقسیم کرتے ہوئے سیاسی فوائد حاصل کررہے ہیں۔ جدید ہندوستان کے ناتھو رام گوڈسے اقتدار پر بھی فائز ہوچکے ہیں کبھی یہ کام ظالم گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہیں تو کبھی مظفر نگر میں تباہی و بربادی مچاتے ہیں، کبھی یہ کمسن حافظ قرآن حافظ جنید کو شہید کرتے ہیں تو کبھی دادری میں محمد اخلاق ان کے ہاتھوں شہید ہوجاتے ہیں۔ قوم پرستی کے نام پر درندگی کا مظاہرہ کرنے والے کئی ناتھو رام گوڈسے شنبھو لال کی شکل میں افروز کا بیدردی سے قتل کرتے ہیں تو کبھی الوار کی سڑکوں پر پہلو خان کا قتل کرتے دکھائی دیتے ہیں حد تو یہ ہے کہ قوم پرستی کا دعویٰ کرنے والے ناتھو رام گوڈسے کے وارث راج گھاٹ پر مہاتما گاندھی کو خراج عقیدت بھی پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ بی جے پی کے قائدین نے مہاتما گاندھی کی 70 ویں برسی پر انہیں زبردستی خراج عقیدت پیش کیا۔ اس پر کنہیا کمار نے ٹوئٹر پر بہت اچھا تبصرہ کیا ۔ انہوں نے لکھا ’’ گاندھی جی کی عظمت اور ان کی تعلیمات سے مطابقت کا آج بھی اس حقیقت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جنھوں نے گاندھی جی کو قتل کیا، ان کی موت پر جشن منایا، ان کے قاتل کی تائید و حمایت کی اور اسے اعزازات بخشے، ان ( گاندھی جی ) کے نظریات اور فلسفہ کو مسترد کردیا، آج وہی لوگ بابائے قوم کو خراج عقیدت پیش کررہے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگاکہ گاندھی جی کو 1914 میں جبکہ وہ جنوبی افریقہ میں تھے مہاتما گاندھی کا خطاب ہندوستانیوں نے عطا کیا۔ انہوں نے یقیناً ڈانڈی نمک ستیہ گرہ، ہندوستان چھوڑ دو تحریک جیسی تحریکوں کے ذریعہ حریت پسندوں کو عدم تشدد کا پیام دیا۔ گاندھی جی نے خلافت تحریک کی بھی بھرپور تائید کی تھی۔ لیکن آج ملک کے جو حالات ہیں اس پر لکھنا پڑتا ہے کہ قوم پرستی کے نام پر ملک کے کونے کونے میں ناتھو رام گوڈسے پھر رہے ہیں جنہیں ہندوستان گاؤ رکھشکوں کے نام پر غنڈہ گردی کرنے والوں میں بآسانی دیکھ سکتے ہیں۔