ڈیوٹی سے سوپر اسپیشالیٹی ڈاکٹرس کی غیر حاضری ، مریضوں کی اموات
حیدرآباد ۔ 4 ۔ اگست : ( سیاست نیوز ) : ایشیا میں ہی سب سے بڑے غریبوں کے دواخانوں کے نام سے مشہور عثمانیہ اور گاندھی ہاسپٹلس میں اب ایمرجنسی علاج مشکل نظر آرہا ہے ۔ آخری سانس لیے ایمرجنسی علاج کے لیے رجوع ہونے والے مریضوں کو بروقت علاج فراہم نہ ہونے سے تڑپ تڑپ کر مررہے ہیں ۔ غریبوں کا بڑا سہارا کے طور پور مشہور عثمانیہ دواخانہ سے روزانہ 250 تا 300 مریض ایمرجنسی علاج کے لیے رجوع ہوتے ہیں بروقت انہیں علاج نہ ملنے کی وجہ سے ماہانہ تین افراد کی اموات ہونے کا ڈاکٹرس خود اعتراف کررہے ہیں ۔ ایمرجنسی حالات میں رجوع ہونے والے مریضوں کو ضروری ٹسٹوں کے بعد متعلقہ شعبہ جات کو روانہ کرنے میں ٹال مٹول کیا جاتا ہے اور وہاں بروقت سوپر اسپیشالیٹی ڈاکٹرس موجود نہیں رہتے ۔ وارڈ بائی اور اسٹریچرس نہ ہونے کی وجہ سے مریض کے رشتہ دار ہی کندھوں پر اٹھا کر مریض کو متعلقہ شعبہ تک لے جارہے ہیں ۔ سانس لینے میں تکلیف محسوس کرنے والوں کو فوری طور پر وینٹیلٹرس چاہئے مگر ایمرجنسی میں ایک بھی وینٹیلیٹر نظر نہیں آتا اور ہیڈ لاک بیڈ کی جگہ ٹوٹے پھوٹے بیڈ اور پھٹے پرانے گدے ہی نظر آتے ہیں ۔ موبائل آکسیجن سلنڈرس ، ضعیف افراد کو لگائے جانے والے ای سی جی لیڈس اور ایکسرے مشن تو بالکل ہی نظر نہیں آتے ۔ برائے نام مرکزی آکسیجن سسٹم ہے مگر ان میں بہت سارے ناکارہ ہیں ۔ بم بلاسٹنگ یا بھاری سڑک حادثات کے بعد کثیر تعداد میں آنے والوں کے علاج کے لیے اب تک ایمرجنسی میڈیکل ڈپارٹمنٹ کا آغاز ہی نہیں کیا گیا ہے ۔ سکندرآباد میں واقع گاندھی جنرل ہاسپٹل میں ایمرجنسی علاج کے لیے روزانہ 200 سے زائد افراد رجوع ہوتے ہیں ۔ یہاں صرف 24 بیڈس ، ایک وینٹیلٹر ، ایک ای سی جی مشن اور ایک ایکسرے مشن ہی ہے وارڈ میں مرکزی آکسیجن سسٹم ہے مگر وہ ناکارہ ہے ۔ زخمیوں کے فوری علاج کے لیے ایک برس قبل قائم کیا گیا ایمرجنسی لیاب بھی کام نہیں کررہا ہے جس کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے ٹسٹوں کے لیے بھی باہر لیابس کو روانہ کررہے ہیں اور ایمرجنسی شعبہ میں ہاوز سرجن کی خدمات ہی اہم ہیں ۔ یہاں 250 ہاوز سرجنس ہیں جن میں سے 50 ڈیوٹی سے غیر حاضر رہتے ہیں اور جہاں مسلسل 7-8 ہاوز سرجنس خدمات انجام دینا ہوتا ہے وہاں صرف 2-3 ہاوز سرجنس ہی نظر آتے ہیں ۔ ایمرجنسی میں رجوع ہونے والے زخمیوں کا ابتدائی علاج کر کے وہاں سے اے ایم سی کو روانہ کرنے میں تاخیر کی جاتی ہے ۔ تمام شعبہ جات کے ماہرین پر مشتمل ایمرجنسی میڈیکل ڈپارٹمنٹ تشکیل دینے کے باوجود اب تک بھی عمل آوری نہیں ہورہی ہے اور ہاسپٹل میں درختوں کے سایہ میں پڑے بے یار و مددگار مریضوں کو تو کوئی بھی پوچھنے والا نہیں ہے ۔۔