گائے ، مذہب اور لو جہاد کے نام ہجومی تشدد ملک کے جمہوری نظام پر بد نما داغ

جمہوری اقدار کی حفاظت کے لیے عدلیہ کو سرگرم رول ادا کرنے کی ضرورت ، جسٹس اے پی شاہ
حیدرآباد۔5اکٹوبر(سیاست نیوز) جسٹس اے پی شاہ نے گائے ‘ مذہب او رمبینہ لوجہاد کے نام پر بڑھتے ہجومی تشدد کے واقعات کو ملک کے جمہوری نظام پر ایک بدنماداغ قراردیتے ہوئے کہاکہ عدلیہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہندوستان کے جمہوری اقدار کی حفاظت میںاپنا سرگرم رول ادا کریں۔ پچھلے کچھ دنوں سے ملک کی عدالتوں نے اپنی موجودگی کا احساس ضرور دلایا ہے مگر پچھلے چندسالوں میںدلتوں اور اقلیتوں پربڑھتے مظالم اور ہجومی تشدد کے واقعات کی روک تھام کے لئے جس طرح کی کارو ائیاں درکار ہیں وہ ہمیںکہیں پر بھی نظر نہیں آرہی ہیں۔جسٹس اے پی شاہ دراصل منتھن کے سمواد میں ’’جمہوریہ عدم رواداری ‘‘ سے خطاب کررہے تھے ۔ گاندھی جینتی کے موقع پر منعقدہ سمواد سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اقوام متحدہ میں قرارداد کے ذریعہ تمام مذہب‘ اقوام‘ طبقات‘ اور جنس کی جان ومال کی حفاظت کے لئے پابند رہنے کی قرارداد میںدستخط کرنے والے ممالک میں ہندوستان کا شمار ہے۔ جسٹس شاہ نے حالیہ دنوں میں پیش آئی پانچ جہدکاروں کی گرفتاری کو بھی عدم رواداری کاحصہ قراردیا ۔ انہو ںنے کہاکہ گرفتار کی وضاحت کے بجائے ٹال مٹول او رمن گھڑت باتوں کا سہارا لینا ‘ ملک کے جمہوری قدروں کے عین مغائر ہے۔اس ضمن میں عدالت عظمیٰ کے جسٹس چندرا چوڑ کے تبصرے کا بھی انہو ںنے ذکر کیا۔انہوں نے الور کے پیہلو خان او راترپردیش کے ہاپور میںقاسم کی ہجومی تشدد کی وجہہ سے ہوئی اموات کا بھی ذکر کیا او رکہاکہ اس قسم کے تمام واقعات یہ رائے قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسلمان جو ہجومی تشدد کا شکار ہوئے ہیں وہ دراصل قصور وار تھے اور حملہ کرنے والے ہندو ئوں نے جذباتی ہوکر یہ کام کیا ہے ‘ کیونکہ ان کے جذبات سے ہندو مذہب کی مقدس مانے جانے والی گائے منسلک ہے۔جسٹس اے پی شاہ نے کہا کہ ویسے تو گائے کے نام پر تشدد ملک میںکوئی نئی بات نہیںہے مگر 2010میںان واقعات میں اضافہ ہوا اور 2014تک 61واقعات درج کئے گئے ۔ انہوں نے کہاکہ نصف سے بھی زیادہ واقعات بی جے پی کی زیراقتدار ریاستوں میںپیش ائے ہیں جس میں نشانہ بنائے جانے والوں میں نوے فیصد سے زائد مسلمان ہی ہیں۔ انہو ںنے کہاکہ قابل افسوس بات تو یہ ہے کہ ہجومی تشدد کے واقعات کی پشت پناہی سیاسی قائدین کررہے ہیں ‘ اور ایسے واقعات میں مجرمین کو تہنیت پیش کرنے میںبھی انہیںکوئی ہرج نہیں ہے۔چند دن قبل آر ایس ایس سربراہ موہن بھگوت نے موافق مسلمان بیان دیا تھا جس کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس اے پی شاہ کہتے ہیں کہ آر ایس ایس سربراہ بھگوت پر کئی زاویوں سے سوال پیدا ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بھگوت ہویا پھر سنگھ کا چھوٹا بڑا کارکن سب کے لئے ساورکر گرو ہیں۔اور ساورکر اپنی تحریروں میںاس بات کی وضاحت کرچکے ہیں کہ اکھنڈ بھارت کی سونچ کیاہے‘ اور ملک ہندوئوں کا ہے اور ان کی وراثت‘ جبکہ مسلمانوں ‘ عیسائی او ر دیگر اقلیتی طبقات اس ملک میںدوسری دنیا سے آئی ہوئی مخلوق ہیں۔ حالانکہ آر ایس ایس سربراہ بھگوت نے ساورکر کی باتوں کو بالائے طاق رکھ کر مسلمانوں اور دیگر ملک کے اقلیتوں سے ہمدردی کی بات تو کہی مگر ملک کی عوام یہ کیسے بھول جائیں کہ آر ایس ایس کے نظریہ ساز ساورکر نے ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل کو حق بجانب قراردیاتھا۔ حالانکہ بھگوات کے مسلم اقلیت نوازی کے بیان کا خیرمقدم کیاجارہا ہے مگر اس بیان کی زمینی حقیقت کیاہے اس کا کسی کو اندازہ نہیںہے۔انہوں نے کہاکہ یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھگوت اور آر ایس ایس کی سونچ میں فرق ہے ۔ جسٹس شاہ نے جمہوری رواداری کے لئے ذرائع ابلاغ کو بھی ذمہ دار ٹہرایا۔ انہوں نے کہاکہ مبینہ لوجہاد کے نام پر کسی بے قصور کومار کر نذرآتش کرتے ہوئے تیار کیاگیا ویڈیو بھی ذرائع ابلاغ کی نشریات میں شامل ہے۔ انہو ںنے کہاکہ بڑھتی عدم روداری میں قومی ذرائع ابلاغ کے رول کو جوابدہ بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ یکطرفہ اشاعت ونشریات کی وجہہ سے نفرت کا زہر تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔انہوں نے کہاکہ قومی ذرائع ابلاغ منفی خبروں کی اشاعت ونشریات تو کرتا ہے مگر مثبت خبریں بتانے سے گریز کیاجاتاہے۔ انہوں نے اس موقع پر نئی دہلی کے انکت سکسینہ کے قتل کا ذکر کیااورکہاکہ انکت کاقتل بین مذہبی معاشقہ کا نتیجہ تھا مگر متوفی نوجوان کے والدین نے فرقہ پرست عناصر کے بہکاوے میں آئے بغیر ‘ رمضان میں مسلمانوں کے لئے افطار کا اہتما م کرتے ہوئے سارے ملک کو یہ پیغام دیا کہ نفرت سے نہیںبلکہ محبت سے امن قائم ہوگا ۔ انہوں نے مزیدکہاکہ ٹھیک اسی طرح مغربی بنگال کے آسنسول میںایک نابینا امام کے بڑھاپے کا سہارا فرقہ پرست کی آگ میںجھونک دیاگیا ۔ اپنے نوجوان بیٹے کی موت پر آہ بکا کرنے کے بجائے واقعہ کو رضائے الہی قراردیتے ہوئے امام نے تمام مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ اس واقعہ پر کسی قسم کا ردعمل نہ دیں ۔اور امن کے ساتھ رہیں ورنہ وہ آسنسول چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ انہو ںنے کہاکہ موجودہ حالات میں یہ دونوں واقعات فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک بہترین مثال کے طور پر پیش کئے جاسکتے ہیں مگر ایسا کرنے کے بجائے ہجومی تشدد اور بربریت کے ویڈیوز کی نشریات کے ذریعہ نفرت کے ماحول میںاضافہ کیاجارہا ہے اور یہ کام اپنی ٹی آر پی کے لئے قومی ذرائع ابلاغ انجام دے رہا ہے۔انہوں نے کہاکہ ٹیلی ویثرن چیانلوں کے لئے پرائم ٹائم میں سوشیل میڈیا او ربالخصوص واٹس ایپ پر پھیلائے جانے والے فرضی ویڈیوز کو شامل کرتے ہوئے صحافتی اقدار کوپامال کیاجارہا ہے۔جسٹس شاہ نے لینچنگ کو امریکی لفظ قراردیا اورکہاکہ امریکہ میںجب سفید او رسیاہ فام لوگوں کے درمیان میں تشدد عروج پر تھا اور سفید فام امریکیو ں کے نشانہ پر سیاہ فام لوگ تھے اور انہیں گھر وں میں سے نکال کر بے رحمی کے ساتھ قتل کررہے تھے ۔ اسی دوران اس لفظ کا استعمال عام ہوا تھا۔انہوں نے کہاکہ جس طرح امریکہ میںسفید اور سیاہ فام لوگوں کے درمیان میں نفرت کا ماحول امریکی میڈیا نے بنایاتھا ٹھیک اسی طرح ہندوستان میںبھی میڈیانفرت کا ماحول بنانے میںپیش پیش رہا ہے ۔انہوں نے کہاکہ ذرائع ابلاغ کی یکطرفہ نشریات واشاعت پر جوابدہی ضروری ہے۔ آخر میںجسٹس اے پی شاہ نے کہاکہ سڑک کے کنارے ٹہرے ہوئے ایک پولیس کانسٹبل سے لے کر عدالت میںجج کی کرسی پر فائزشخص تک تمام پر گائے ‘ مذہب اور مبینہ لوجہاد کے نام پر بڑھتے ہجومی تشدد کے واقعات کو روکنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔انہوں نے کہاکہ ان واقعات میںجانی اور مالی نقصانات کی مسلسل اجرائی ان واقعات کی روک تھام میںمعاون ثابت ہوگی۔