”بیف” ایکسپورٹ پر پابندی ضروری۔ اے پی سی آر کی راؤنڈ ٹیبل کانفرنس
حیدرآباد 28؍جولائی۔ (پریس نوٹ ) محکمہ پولیس کی جانب سے گاؤ رکھشکوں کو جانوروں کی فروخت اور ان کی ٹرانسپورٹیشن کو روکنے کا جو اختیار ایک جی او کے تحت دیا گیا ہے اسے عدالت میں چیلنج کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ بیف بالخصوص گائے کے گوشت کے ایکسپورٹ پر پابندی کی ضرورت ہے کیوں کہ عدالتی فیصلہ کی رو سے گائے مقدس ہے ۔ ان خیالات کا اظہار مختلف فلاحی تنظیموں سے وابستہ شخصیات نے ایک راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں کیا جو ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سیول رائٹس کے زیر اہتمام میڈیا پلس آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی۔ مسٹر عابد رسول خان سابق چیرمین مائناریٹی کمیشن’ سابق سفیر برائے جرمنی مسٹر ونود کمار آئی اے ایس’ پروفیسر پی ایل ویشویشور راؤ، سابق صدر شعبہ جرنلزم عثمانیہ یونیورسٹی فہیم قریشی ایڈوکیٹ صدر جمعیت القریش ایکشن کمیٹی کے بشمول سرکردہ شخصیات نے حساس اور سلگتے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔مسٹر عابد رسول خان نے کہا کہ بقرعید سے پہلے سے میڈیا کے ذریعہ اشتعال انگیزی پیدا کی جارہی ہے ۔ یکساں سیول کورڈ’ تحفظ گاؤ جیسے موضوعات پر اخبارات اشتعال انگیزی کررہے ہیں۔ انہوں نے فرقہ پرست طاقتوں سے نمٹنے کے لئے سماج کے تمام طبقات کو متحدہ اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔ مسٹر ونود کمارآئی اے ایس نے کہا کہ جو کچھ ملک میں ہورہا ہے وہ سنگھی ذہنیت کی دین ہے ۔جانوروں کی فروخت پر پابندی سے متعلق قانون کو معطل کروانے کے لئے قانونی لڑائی لڑنے اور کلیدی رول ادا کرنے والے جمعیت القریش الیکشن کمیٹی کے صدر فہیم قریشی ایڈوکیٹ نے کہا کہ سنگھی ذہنیت کے حامل افراد ملک بھر میں منظم اور منصوبہ طریقہ سے متحرک ہیں اور وہ ایسے قوانین کے نفاذ کے لئے کوشاں ہیں جس سے دیگر طبقات متاثر ہوں۔ مختلف شعبہ جات میں تعصب پسند عناصر کی موجودگی سے ماحول مکدر ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ہر سال آٹھ سو کروڑ روپئے ٹیکس اگریکلچرل ڈپارٹمنٹ کے تحت جانوروں کی فروخت سے حاصل کیا جاتا ہے ۔ دودھ دینے والے جانور کو ذبح نہیں کیا جاسکتا۔ فہیم قریشی نے کئی اچھی تجاویز پیش کیں۔ انہوں نے بتایا کہ مرکزی حکومت کی جانب سے 500کروڑ روپئے کا فنڈ گاؤ شالہ کے لئے مختص کیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ گائے تقدس اور تحفظ کے نام سے ملک و بیرون ملک سے اربوں روپئے حاصل کیا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ پرست عناصر متحد ہیں۔ مسلمان متحد نہیں ہیں۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق گائے مقدس جانور بھی ہے اور ایک طبقہ اسے ماں مانتا ہے ۔ فرقہ پرست عناصر اسے مذہبی رنگ دے کر استحصال کررہے ہیں۔ گاؤ رکھشک اسپیشل پولیس فورس کے طور پر کام کررہے ہیں۔مسٹر عبدالجبار صدیقی نے عیدالاضحیٰ کو پُرامن انداز سے احکامِ الٰہی کے مطابق منانے کی تلقین کی۔ دستور کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے ۔ غنڈہ گردی کو حکومت کی سرپرستی ختم کی جائے ۔ ضلعی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔ پروٹیکشن کمیٹیاں سنگین حالات میں متعلقہ افسروں سے ربط قائم کریں اور تلنگانہ کو ایک مثالی ریاست کے طور پر ملک میں پیش کریں۔ خریدے ہوئے جانوروں کو بازارتک لانے کے لئے پولیس تحفظ فراہم کیا جائے ۔ رعیتو بازار کی طرح حکومت کی جانب سے ذبیحہ کے جانوروں کا بازار شروع کیا جائے ۔سردار نانک سنگھ نشتر صدر راشٹریہ سکھ سنگت نے کہا کہ گائے کا سکھوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ آر ایس ایس مسلمانوں اور سکھوں کو اس عنوان پر لڑانا چاہتی ہے ۔ گائے اگر مقدس ہے تو اس کا دودھ’ دہی فروخت کرنے والے بھی قابل تعظیم ہیں۔ انہوں نے مظالم کے خلاف مشترکہ اقدام کی ضرورت پر زور دیا۔نعیم اللہ شریف، طارق قادری ایڈوکیٹ، منیرالدین مجاہد، مجاہد ہاشمی، قدسیہ نسیم، عابدہ بیگم، مولانا حامد حسین شطاری نے بھی خطاب کیا۔پروفیسر ویشویشور راؤ نے کہا کہ گوا میں گذشتہ ماہ آر ایس ایس کے اجلاس میں قرارداد منظور کی گئی کہ ملک کا دستور تبدیل کیا جائے اور سیکولرزم ختم کرکے ہندو راشٹر بنایا جائے ۔ مسلمانوں سے ووٹ کا حق چھین لیا جائے ۔ اس کانفرنس میں محمد افضل، کے ایم گروچرن، وی شیوچرن، شیوانی، ڈاکٹر امجداللہ بیگ، ہما جبین بھی شریک تھے ۔ محمد افضل کنوینر کانفرنس نے نظامت کے فرائض انجام دے ئے ۔ محمد اسد علی نے شکریہ ادا کیا۔