حیدرآباد۔/25جون، ( آئی این این ) باوقار حیدرآباد میٹرو ریل پراجکٹ کو جزوی طور پر زیر زمین بنانے تلنگانہ کے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی تجویز و ہدایات کے سبب نہ صرف غیرمعمولی تاخیر کا شکار ہوسکتا ہے بلکہ اس کے تعمیراتی مصارف میں ہزاروں کروڑ روپئے کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ باخبر ذڑائع کے مطابق چیف منسٹر کے سی آر نے چادر گھاٹ تا خیریت آباد پٹی پر جاری میٹرو ریل پراجکٹ کا کام روک دینے عالمی شہرت یافتہ باوقار کمپنی لارسن اینڈ ٹوبرو ( ایل اینڈ ٹی ) کو زبانی ہدایت دی ہے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ اس پٹی پر میٹرو ریل زمین کی سطح کے بجائے زیر زمین تعمیر کی جائے۔ تاہم سرکاری ذرائع نے اس بات کی توثیق نہیں کی ہے۔
لیکن ایل اینڈ ٹی میں باوثوق ذرائع نے کہا کہ کے سی آر کی تجویز پر وہ حکومت تلنگانہ کے سرکاری مکتوب کے منتظر ہیں۔ ایل اینڈ ٹی کے ذرائع نے تاہم یہ بھی کہا کہ کے سی آر کی اس تجویز پر بعض تکنیکی وجوہات کی بناء پر عمل آوری ممکن نہیں ہے کیونکہ ان کی تجویز پر عمل کرنے کی صورت میں تعمیراتی مصارف میں مزید 2000 کروڑ روپئے کا بوجھ عائد ہوگا اور سارا پراجکٹ کم سے کم مزید پانچ سال کیلئے تاخیر کا شکار ہوگا۔ چادرگھاٹ۔ خیریت آباد پٹی آٹھ کیلو میٹر طویل ہے جہاں حیدرآباد میٹرو ریل ( ایچ ایم آر ) کو مزید 30ستون نصب کرنا ہوگا۔ اس پٹی پر 50تا60لاکھ روپئے کی لاگت سے ایک ستون تعمیر کیا جارہا ہے اورپہلے ہی 60 ستون نصب کئے جاچکے ہیں اور اگر اس پٹی پر پراجکٹ کو زیر زمین بنایا جاتا ہے تو ہر ایک ستون کو منہدم کرنے پر کم سے کم ایک کروڑ روپئے کے مصارف عائد ہوں گے۔
میٹرو ریل کو زیر زمین بنانے کیلئے 8کیلو میٹر طویل پٹی پر 20تا 25میٹر گہری کھدائی کرنا ہوگا، بعض مقامات پر یہ کھدائی 30تا35 میٹر گہری بھی ہوسکتی ہے۔ نیز آغاز کے مقام پر اطراف کا 4تا5ایکر محیط رقبہ درکار ہوگا اور کام کی تکمیل تک اس مصروف ترین علاقہ میں ٹریفک کی آمد ورفت کو بند کردینا ہوگا۔ چنانچہ پراجکٹ کو جزوی طور پر زیر زمین بنانے کے سی آر کی تجویز سے نہ صرف تاخیر ہوگی بلکہ مصارف میں بھی بھاری اضافہ ہوگا۔اس دوران ایچ ایم آر اور ایل اینڈ ٹی نے پرنسپال سکریٹری محکمہ بلدی نظم و نسق و شہری ترقیات کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے چیف منسٹر کی طرف سے ظاہر کردہ نظریات پر وضاحت طلب کی ہے ۔ تاہم ہنوز جواب کی منتظر ہے۔