کے سی آر کا دورۂ دہلی

اُجالے فکر و فن کے بیچ لینا
یہ سودا آج کل اچھا رہا ہے
کے سی آر کا دورۂ دہلی
تلنگانہ راشٹرا سمیتی کے صدر و چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے حال ہی میں بی جے پی اور کانگریس کے خلاف وفاقی محاذ قائم کرنے کی مہم چلائی تھی ، بی جے پی اور کانگریس کو نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دونوں پارٹیاں گذشتہ 70 سال کے دوران عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوئی ہیں اس لئے وہ علاقائی پارٹیوں کو لیکر ایک وفاقی محاذ بنائیں گے جس سے قومی سیاست میں تہلکہ مچ جائے گا۔ انہوں نے اپنے اس وفاقی محاذ کا ایک ایجنڈہ بھی بنانے کا اعلان کیا تھا جس کے ذریعہ عوام کے حقیقی مسائل کو حل کرتے ہوئے ترقی کی منزلیں تیزی سے طئے کی جائیں گی مگر چند ماہ کے اندر ہی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا وفاقی محاذ کا جذبہ سرد پڑ گیا۔ ان کا سیاسی عزم پختہ اور قابل عمل سمجھا جارہا تھا لیکن دہلی کی مرکزی قیادت سے ان کی حالیہ ملاقات اور پھر نیتی آیوگ کے اجلاس میں شرکت کے بعد سیاسی حلقوں میں سرگوشیاں ہونے لگی ہیں کہ چیف منسٹر کے سی آر نے اپنا وفاقی محاذ کا منصوبہ شاید ترک کردیا ہے اور وہ آنے والے لوک سبھا انتخابات 2019 میں بی جے پی کے ہاتھ مضبوط کرنے کا باعث بنیں گے۔ دہلی میں چیف منسٹر اروند کجریوال نے اپنی حکومت کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کے خلاف لیفٹننٹ گورنر کے دفتر پر ’’بیٹھے رہو ‘‘ احتجاج کیا ہے۔ اروند کجریوال کی حمایت میں چار علاقائی چیف منسٹروں چندرا بابو نائیڈو، ممتا بنرجی، کمارا سوامی اور پینا رائی وجین نے بیانات دیئے اور ان سے اظہار یگانگت بھی کیا مگر کے چندر شیکھر راؤ نے دہلی میں ہونے کے باوجود وفاقی حکومت کی بنیادوں کو کمزور کرنے والی مرکزی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانے والے چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال کی تائید نہیں کی۔ انہوں نے وزیر اعظم مودی سے ملاقات کی اس کے بعد ان کے وفاقی جذبہ کے بارے میں کئی سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ وہ دیگر علاقائی قائدین کی طرح چیف منسٹر دہلی کی تائید کرتے، لیکن وہ ہمیشہ خود کو محفوظ زمرہ میں رکھنے کے عادی ہیں اس لئے انہوں نے دیگر 4 ریاستوں کے اپنے ہم منصبوں میں شامل ہونے سے گریز کیا۔ دہلی حکومت کے ساتھ مرکز کا رویہ ایک دستوری بحران پیدا کررہا ہے لیکن مرکز کو اس کی پرواہ نہیں ہے۔ دہلی میں قیام کے دوران کے سی آر کو اپوزیشن اتحاد کے مظاہرہ کا موقع حاصل ہوا تھا۔ چار ریاستوں کے چیف منسٹروں کے ساتھ وہ اپنے وفاقی محاذ کے نظریہ کو مضبوط بناسکتے تھے۔ مرکز کی متبادل طاقت بنانے کے لئے جس سیاسی حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے اس کا مظاہرہ کرنے میں کے سی آر ناکام دکھائی دیتے ہیں یا پھر وہ وقت آنے پر اپنا سیاسی ایجنڈہ ظاہر کریں گے۔ تلنگانہ کانگریس قائدین نے کے سی آر کی اس خاموشی پر جس طرح کا ردعمل ظاہر کیا ہے اس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ وہ بی جے پی کے ایجنٹ کے طور پر کام کررہے ہیں۔ لیکن کانگریس نے اپوزیشن پارٹی کے طور پر کے سی آر کے سیاسی تجربہ کا اندازہ نہیں کیا ہے وہ فی الحال مودی حکومت کے خلاف تصادم کا موقف اختیار کرنے سے گریز کرتے آرہے ہیں لیکن کے سی آر کو آنے والے عام انتخابات سے قبل اپنے مستقبل کی حکمت عملی ظاہر کرنا ضروری ہوگا۔ کرناٹک کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کے بعد مرکز کے ساتھ علاقائی پارٹیوں کے تصادم کی صورتحال مضبوط ہوگئی ہے اور اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے بجائے وہ اپنے وفاقی محاذ کے منصوبہ سے پیچھے ہورہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا وہ کانگریس کے بغیر اپنے محاذ کا خواب پورا کرسکیں گے۔ شاید انہوں نے از خود اپنا محاسبہ کرلیا ہے اور اس کا نتیجہ بھی اخذ کرلیا ہے کہ اگر بی جے پی سے ٹکراؤ کا موقف اختیار کرلیا گیا تو ان کا سیاسی مستقبل داؤ پر ہوگا اور اگر کانگریس سے ہاتھ ملاکر وفاقی محاذ بنالیا تو قومی عزائم میں کامیابی نہیں ملے گی۔ اس وقت کے سی آر تذبذب کا شکار معلوم ہوتے ہیں، وہ اس کیفیت سے باہر آنا تو چاہتے ہیں لیکن وہ اپنی خواہشوں کی زنجیروں میں بھی خود کو جکڑے ہوئے پارہے ہیں۔ مثالی وفاقی محاذ کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے تو تلنگانہ کا اقتدار بچانا ہی ان کے لئے مشکل ترین مرحلہ ہوگا۔