عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کو نہیں حکومت کو منہدم کرنا چاہئے ۔ اودیش رانی ، کیپٹن پانڈو رنگاریڈی اور ڈاکٹر شیام سندرپرساد کا اظہار خیال
حیدرآباد ۔ 5 ۔ اگست : ( نمائندہ خصوصی ) : ملک کا تاریخی دواخانہ ، عثمانیہ جنرل ہاسپٹل حیدرآبادی تہذیب یہاں کی محبت مروت ، ہمدردی ، جذبہ ایثار و قربانی اور انسانیت نوازی کی بہترین مثال ہے ۔ حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں کی جانب سے تعمیر کروائے گئے اس ہاسپٹل کا شمار نہ صرف حیدرآباد ، تلنگانہ اور ہندوستان بلکہ دنیا کے قدیم ہاسپٹلوں میں ہوتا ہے ۔ جب کہ فن تعمیر کے لحاظ سے عثمانیہ جنرل ہاسپٹل دنیا کے ان چنندہ ہاسپٹلوں میں شامل ہیں ۔ جو طبی لحاظ سے کافی اہمیت رکھتے ہیں ۔ تلنگانہ بالخصوص حیدرآبادی شہریوں کے لیے یہ بات باعث افتخار ہے کہ عثمانیہ میڈیکل کالج کے فارغ التحصیل اور عثمانیہ جنرل ہاسپٹل میں خدمات انجام دے چکے ڈاکٹروں کو ساری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ لیکن بڑی افسوس بلکہ بدبختی کی بات یہ ہے کہ چیف منسٹر مسٹر کے چندر شیکھر راؤ سرزمین دکن پر موجود فن تعمیر کے اس شاہکار کا وجود مٹانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ اس سلسلہ میں ہم نے حیدرآبادی تہذیب کی نمائندہ شخصیتوں سے بات کی ۔ ان کا یہی کہنا ہے کہ عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کو بوسیدگی کا بہانہ بناتے ہوئے منہدم نہیں کیا جانا چاہئے ۔ اس لیے کہ یہ عمارت جہاں ہماری تہذیب کی علامت ہے وہیں طبی ایجادات و کارناموں کے لیے شہرت رکھتی ہے ۔ حیدرآبادی تہذیب اور آصف جاہی حکمرانوں کی رعایا پروری کے مداح اور ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار کیپٹن پانڈو رنگاریڈی کے مطابق نواب میر عثمان علی خاں بہادر جیسا رعایا پرور حکمراں ہندوستان کے کسی دیسی ریاست کو نصیب نہیں ہوا ۔
انہوں نے ریاست حیدرآباد دکن کے عوام کی خاطر عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کی وسیع و عریض عمارت تعمیر کرائی اور حیدرآباد دکن کے تمام اضلاع کے عوام علاج کے لیے اس ہاسپٹل کا رخ کیا کرتے تھے اور آج بھی ان علاقوں سے مریض عثمانیہ جنرل ہاسپٹل آتے ہیں ۔ مہاراشٹرا ، کرناٹک اور ہندوستان بھر سے مریض عثمانیہ ہاسپٹل میں علاج کے لیے آتے رہے ۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ ہندوستان کا یہ واحد ہاسپٹل تھا جہاں مریضوں اور ان کی تیمار داری کرنے والوں کو معیاری کھانا ، دودھ اور روٹی مفت سربراہ کی جاتی تھی اور ناشتہ میں ایک انڈہ بھی دیا جاتا تھا ۔ اس کے علاوہ اس ہاسپٹل میں قابل ترین ڈاکٹرس خدمات انجام دیا کرتے تھے ۔ کیپٹن پانڈو رنگاراؤ جنہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی کے لوگو میں تبدیلی پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے سے انکار کردیا تھا بتایا کہ اگرچہ عثمانیہ ہاسپٹل 26.7 ایکڑ اراضی پر محیط ہے لیکن اصل تاریخی عمارت 2.5 ایکڑ اراضی پر تعمیر کروائی گئی تھی اگر چیف منسٹر ہاسپٹل کی نئی عمارت تعمیر کرانا چاہتے ہیں تو انہیں اس تاریخی آثار کو چھوڑ کر اس کے اطراف مابقی کئی ایکڑ اراضی ہے اس پر ہاسپٹل کی نئی عمارت تعمیر کرانی چاہئے ۔ اگر کے سی آر بیس ، تیس ، چالیس یا 100 منزلہ عمارت تعمیر کرتے ہیں تو کسی کو اعتراض نہیں ہوگا ، ہاں مہربانی کر کے چیف منسٹر عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کا پیچھا چھوڑ دیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملکہ ایلزبتھ 1000 سالہ قدیم بکنگھم پیالیس میں مقیم ہیں اگر وہ 1000 سال قدیم محل میں رہ سکتی ہیں تو پھر 90 سالہ قدیم عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کی تزئین نو کیوں نہیں کی جاسکتی ۔ فرق صرف دیکھ بھال کا ہے ۔ کیپٹن پانڈو رنگاریڈی نے اس میں ایک ہیلتھ میوزیم قائم کرنے کا مطالبہ کیا ۔ حیدرآبادی تہذیب کی انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت سے مشہور محترمہ اودیش رانی سے جب ہم نے بات کی تو انہوں نے ٹھیٹ حیدرآبادی لہجہ میں کے سی آر کے فیصلہ پر برہمی کا اظہار یوں کیا ’’ عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کو بالکل منہدم نہیں کرنا چاہئے اگر کسی چیز کو منہدم ہی کرنا ہے تو اس حکومت کو منہدم کیا جانا چاہئے ۔
ہمارے چیف منسٹر حیدرآبادی تہذیب کی علامتوں کو منہدم کرنے پر تلے ہیں ۔ روز صبح اٹھ کر اس کو گراتوں اس کو گراتوں بولے تو کیسا ‘‘ ۔ محترمہ ادیش رانی کے مطابق کے سی آر عصر حاضر کے ’ توڑ پھوڑ اسمعیل ‘ بن گئے ہیں ۔ ہمارے اس سوال پر کہ آخر توڑ پھوڑ اسمعیل کون تھے ۔ جن کا اکثر حوالہ دیا جاتا ہے ؟ اودیش رانی نے بتایا کہ آصف جاہی دور میں بنگلور سے آئے سر اسمعیل کو وزیر مقرر کیا گیا ۔ انہوں نے اپنے عہدہ کا جائزہ لیتے ہی حسین ساگر پر موجود دیوار کو منہدم کردیا پھر مکہ مسجد کے باہر کی دیوار کو گرادیا ۔ ایک مرتبہ وہ سڑک پر ٹھہرے اپنی نظریں اٹھائے چارمینار کا جائزہ لے رہے تھے کہ قریب میں موجود ٹانگوں والوں میں سے ایک نے آواز لگائی ’’ دیکھ را کیا سبل لگا ‘‘ ۔ یہی حال ہمارے چیف منسٹر کا لگتا ہے ۔ دوسری جانب شہر کے ممتاز ڈاکٹر اور انسانیت نواز شخصیت ڈاکٹر شیام سندر پرساد نے بھی عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کو منہدم کرنے کے منصوبہ کی شدید مخالفت کی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ کے سی آر کو اس طرح کا اعلان کرنے سے قبل ڈاکٹروں دانشوروں اور حیدرآباد کی اہم شخصیتوں سے مشاورت کرنی چاہئے تھی ۔ حکومت کو عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کو منہدم کرنے کے بجائے مریضوں کے بہتر علاج و معالجہ پر توجہ دینی چاہئے ۔ ڈاکٹر شیام سندر پرساد نے مزید بتایا کہ اب عثمانیہ ہاسپٹل جیسی کوئی عمارت نہیں بن سکتی ۔۔