کے سی آر حکومت کی اسرائیل سے قربت، اقلیتوں میں بے چینی

کسانوں کے نمائندوں کو اسرائیل روانہ کرنے کا فیصلہ ، اقلیتوں سے ہمدردی کے دعوے کھوکھلے ثابت
حیدرآباد ۔ 30 ۔ مئی (سیاست نیوز) تلنگانہ کی کے سی آر حکومت نے اسرائیل سے تعلقات مستحکم کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے زرعی شعبہ میں اسرائیلی ٹکنالوجی کے حصول کی تیاری کرلی ہے۔ ایسے وقت جبکہ دنیا بھر میں اسرائیل کی مذمت کی جارہی ہے، تلنگانہ حکومت نے زرعی شعبہ میں بہتر تال میل کیلئے کسانوں کی رابطہ کمیٹی کے نمائندوں کو اسرائیل روانہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ زرعی شعبہ میں اسرائیلی ٹکنالوجی کو اختیار کرنے کی مساعی کا آغاز وائی ایس راج شیکھر ریڈی دور حکومت میں ہوا تھا۔ تلنگانہ کی تشکیل کے بعد کے سی آر نے امن و ضبط کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے پولیس عہدیداروں کو اسرائیل میں ٹریننگ کیلئے روانہ کیا۔ کئی عہدیدار اسرائیل کا دورہ کرتے ہوئے امن و ضبط کی صورتحال سے نمٹنے اور خاص طور پر جرائم پر قابو پانے کے سلسلے میں اسرائیلی پولیس سے ٹریننگ حاصل کرچکے ہیں۔ احتجاجیوں سے نمٹنے کیلئے زیادہ تر اسرائیلی ٹکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے۔ کسی بھی احتجاج کی صورت میں خاردار تاروں سے علاقہ کی ناکہ بندی اسرائیل سے سیکھا ہوا طریقہ کار ہے۔ شہر اور اضلاع میں علاقوں کی ناکہ بندی کرتے ہوئے کارڈن سرچ کے نام پر مکانات کی تلاشی اسرائیل کی حکمت عملی کو اختیار کرنے کی تازہ ترین مثال ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل جس طرح کے حربے استعمال کرتا ہے ، اسی طرح کی ٹریننگ تلنگانہ پولیس عہدیداروں کو دی گئی۔ ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی لاء اینڈ آرڈر کے سلسلہ میں اسرائیلی ٹریننگ حاصل کی ہیں۔ مرکز کی نریندر مودی حکومت نے مختلف شعبہ جات بشمول دفاعی شعبہ میں اسرائیل کے ساتھ کئی معاہدات کئے۔ تلنگانہ کی چندر شیکھر راؤ حکومت اقلیتوں سے ہمدردی کا دعویٰ کرتی ہے لیکن رازدارانہ طور پر اسرائیل سے بڑھتے تعلقات تشویش کا باعث ہیں۔ اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے سے قبل کے سی آر نے اقلیتوں کے جذبات کا کوئی خیال نہیں رکھا جنہوں نے گزشتہ انتخابات میں ٹی آر ایس کی تائید کی تھی ۔ بتایا جاتا ہے کہ اسرائیلی حکام نے حیدرآباد میں کونسلیٹ کے قیام کی تجویز پیش کی ہے۔ کے سی آر حکومت کا اسرائیل سے دوستی کا رویہ اسی طرح برقرار رہا تو عین ممکن ہے کہ حیدرآباد میں اسرائیلی کونسلیٹ قائم ہوجائے۔

حیدرآباد کے مختلف تجارتی اداروں سے اسرائیل معاہدات کا خواہاں ہے تاکہ اشیاء کا تبادلہ عمل میں آئے۔ زرعی شعبہ میں اسرائیل کے تجربات سے استفادہ کے نام پر مخالف مسلم صیہونی مملکت سے تعلقات استوار کرنا افسوسناک ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک کے وہ تمام ممالک جو زراعت میں ہندوستان سے آگے ہیں۔ کیا ان تمام نے اسرائیل کی ٹکنالوجی کو اختیار کیا ؟ اسرائیل کے بغیر بھی کئی ایسے ممالک ہیں جن سے زرعی شعبہ کے سلسلہ میں باہمی تعاون کی گنجائش ہے لیکن اس سلسلہ میں اسرائیل کا انتخاب حکومت کے ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔ کے سی آر نے کانگریس پارٹی کے قائدین کا سامنا کرنے سے بچنے کیلئے گزشتہ دنوں کرناٹک میں کمارا سوامی کی حلف برداری تقریب میں شرکت نہیں کی۔ جب اپنے سیاسی مفادات کا اس قدر پاس و لحاظ ہے تو پھر مسلمانوں کے جذبات کا بھی احترام ہونا چاہئے ۔ فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کا سلسلہ بدستور جاری ہے ، ایسے میں چیف منسٹر نے اعلان کیا کہ کسانوں کی رابطہ کمیٹی کے ضلعی کوآرڈینیٹرس کو اسرائیل کے دورہ پر روانہ کیا جائے گا۔ سفر کے تمام اخراجات حکومت برداشت کرے گی۔ دورہ کا مقصد زرعی شعبہ میں اسرائیلی ٹکنالوجی کا مشاہدہ اور اس کے طریقہ کار کو اختیار کرنا ہے۔ چیف منسٹر نے عہدیداروں کے ساتھ اجلاس میں کہا کہ اسرائیل میں زرعی شعبہ منافع بخش ہے۔ وہاں پیداوار دیگر ممالک سے زیادہ ہے۔ زرعی شعبہ سے وابستہ افراد عصری ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے زائد منافع حاصل کر رہے ہیں۔ تلنگانہ کے کسانوں کو زائد منافع کے طریقہ کار سے ہم آہنگ کرنے کیلئے کسانوں کی کمیٹیوں کے کوآرڈینیٹرس کو اسرائیل روانہ کیا جائے گا۔ وہ واپسی کے بعد اپنے اپنے علاقوں میں کسانوں کو اسرائیلی ٹکنالوجی سے واقف کرائیں گے۔ ایسے وقت جبکہ عام انتخابات قریب ہیں، اسرائیل سے قربت کا کے سی آر حکومت کا فیصلہ مسلمانوں میں ناراضگی کا سبب بن سکتا ہے ۔ زرعی شعبہ ہو یا پولیس عہدیداروں کی ٹریننگ کسی بھی معاملہ میں قربت کے نتیجہ میں اسرائیل کی اولین ترجیح اپنے مفادات کی تکمیل ہوگی۔ ہندوستان کے دیگر شہروں کے مقابلہ حیدرآباد میں مخالف اسرائیل جذبات شدید ہیں۔ فلسطینیوں پر مظالم کے خلاف حیدرآباد میں مسلم تنظیموں نے سخت احتجاج کیا تھا۔ اگر اسرائیل سے کے سی آر حکومت کے تعلقات مستحکم ہوجائیں تو مسلم تنظیموں اور جماعتوں کو بھی نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔