کے سی آر تلنگانہ کے دوبارہ چیف منسٹر ہوں گے: کے ٹی آر

2019 میں ٹی آر ایس کی کامیابی، فلاحی اور ترقیاتی اسکیمات ملک میںمثالی
حیدرآباد۔/18 مئی، ( سیاست نیوز) وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی کے ٹی راما راؤ نے کہا کہ کے سی آر تلنگانہ کے صد فیصد دوبارہ چیف منسٹر ہوں گے۔ 2019 کے انتخابات ٹی آر ایس کے حق میں یکطرفہ رہیں گے اور کسی اور پارٹی کو عوامی تائید حاصل نہیں ہوگی۔ کے ٹی آر نے کہا کہ عوام خود چاہتے ہیں کہ کے سی آر دوبارہ چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز ہوں تاکہ فلاحی اور ترقیاتی اقدامات کا تسلسل جاری رہے۔ کے ٹی آر نے چیلنج کیا کہ اگر ٹی آر ایس اقتدار میں نہیں آئے گی تو وہ عملی سیاست سے دوری اختیار کرلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ 2019 ء میں ٹی آر ایس تنہا مقابلہ کرے گی اور دوبارہ برسراقتدار آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کی بھلائی کیلئے امدادی قیمت سے رعیتو بندھو اسکیم ملک بھر کیلئے مثالی ہے۔ ملک کی کسی بھی ریاست نے کسانوں کو فصل بونے کے موقع پر امدادی رقم فراہم کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ عام طور پر کسان قرض کا شکار ہوجاتے ہیں لہذا حکومت نے خریف اور ربیع میں 8 ہزارروپئے کی امداد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اسکیم پر کامیابی سے عمل آوری جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ آبپاشی پراجکٹس کی تعمیر اور رعیتو بندھو اسکیم کے سبب خلیج میں کام کرنے والے افراد وطن واپسی کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ انہوں نے مرکز سے مطالبہ کیا کہ ضمانت روزگار اسکیم کو زراعت سے مربوط کیا جائے۔ کے ٹی آر نے کہا کہ 98.3 فیصد چھوٹے اور متوسط کسان ہیں صرف 1.7 فیصد کسانوں کے پاس 10 ایکر سے زائد زمین موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ 10ایکر سے زائد اراضی والے کسانوں کو اگر فصلوں کی امدادی رقم نہیں دی گئی تو اپوزیشن کو اعتراض کا موقع مل جائے گا۔ اسکیم پر مکمل شفافیت سے عمل آوری حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ کے ٹی آر نے کہا کہ گزشتہ چار برسوں میں حکومت نے تمام اہم شعبہ جات میں انقلابی قدم اٹھائے ہیں۔ ملک کی دیگر ریاستوں کے عہدیداروں نے تلنگانہ کے اسکیمات کی تفصیلات حاصل کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کرناٹک میں بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں تلنگانہ کی کئی اسکیمات کو شامل کیا۔ کے ٹی آر نے کہا کہ ترقیاتی اور فلاحی اسکیمات کے نتیجہ میں عوام آئندہ انتخابات میں دوبارہ ٹی آر ایس کی تائید کریں گے۔ انہوںنے اپوزیشن کے رویہ پر تنقید کی اور کہا کہ ہر اسکیم کو تنقید کا نشانہ بنانا عادت بن چکی ہے اگر فلاحی اسکیمات کی اسی طرح مخالفت کی گئی تو اپوزیشن کو عوامی برہمی کا سامنا کرنا پڑیگا۔