کے سی آر اپنے دوست کے خلاف کیوں ہوگئے ؟

مرکز کے اشارہ پر چندرا بابو نا ئیڈو نشانہ پر،ایک تیر سے دو شکار ، ریونت ریڈی بھی ٹارگٹ
حیدرآباد ۔ 8 ۔ مئی (سیاست نیوز) چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کیلئے دوستی کا مفہوم محض زبانی لفظ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اگر وہ کسی کو اپنا دوست کہہ دیں پھر بھی اس بات کی ضمانت نہیں کہ وہ دوست سے دشمنی کب شروع کردیں۔ حالیہ عرصہ میں قومی سیاست میں اہم رول ادا کرنے کی کوششوں نے کے سی آر کو دوست اور دشمن کی پہچان سے محروم کردیا ہے۔ گزشتہ دنوں ٹاملناڈو کے دورہ کے موقع پر کے سی آر نے آندھراپردیش کے چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو کو اپنا بہترین دوست (بیسٹ فرینڈ) قرار دیا تھا ۔ اور تیسرے محاذ کی تشکیل کے سلسلہ میں جلد ملاقات کا اشارہ دیا۔ چندرا بابو نائیڈو سے ملاقات سے قبل ہی کے سی آر نے اپنے بیسٹ فرینڈ کے خلاف قانونی کارروائی کو تیز کردیا ہے۔ ووٹ برائے نوٹ اسکام کی تحقیقات کے سلسلہ میں کے سی آر کی جانب سے طلب کردہ جائزہ اجلاس پر سیاسی حلقوں میں مختلف تبصرے کئے جارہے ہیں۔ ٹی آر ایس کے قائدین خود بھی یہ جواب دینے سے قاصر ہیں کہ کے سی آر نے اچانک اپنے دوست کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیوں کیا ؟ چندرا بابو نائیڈو سے رشتوں میں نرمی اور گرمی کا معاملہ تلنگانہ تحریک سے جاری تھا۔ تلگو دیشم کی جانب سے علحدہ تلنگانہ کی مخالفت کے سبب کے سی آر نے چندرا بابو نائیڈو پر سخت تنقید کی تھی ۔ نئی ریاست تلنگانہ کے قیام کے بعد دونوں ریاستوں کے مشترکہ گورنر ای ایس ایل نرسمہن نے چیف منسٹرس کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی کوشش کی اور راج بھون میں دونوں کی خوشگوار ملاقاتیں بھی ہوئیں۔کے سی آر نے ووٹ برائے نوٹ اسکام کے معاملہ کو برفدان کی نذر کرتے ہوئے چندرا بابو نائیڈو کو بچانے کی کوشش کی تھی لیکن اچانک دوبارہ اس اسکام پر جائزہ اجلاس سے کئی سوالات ابھر رہے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ کے سی آر نے مرکز کی ایماء پر ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ کے سی آر نے ووٹ برائے نوٹ اسکام کا اجلاس اس دن طلب کیا جس دن آندھراپردیش میں چندرا بابو نائیڈو نے مرکز کے خلاف مختلف ریاستوں کے وزرائے فینانس کا اجلاس طلب کیا تھا ۔ اس اجلاس میں تلنگانہ نے شرکت کی نہیں۔ تیسرے محاذ کی تشکیل کیلئے چندرا بابو نائیڈو سے ملاقات کا اعلان کرنے والے کے سی آر کے رویہ میں اچانک تبدیلی سے قیاس کیا جارہا ہے کہ مرکز کے اشارہ پر ووٹ برائے نوٹ اسکام کے ذریعہ نائیڈو کو الجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسکام کے سلسلہ میں جو آواز فون پر ریکارڈ کی گئی تھی، فارنسک رپورٹ میں وہ چندرا بابو نائیڈو کی ثابت ہوچکی ہے۔ تلنگانہ حکومت کو اس معاملہ میں سپریم کورٹ میں حلفنامہ داخل کرنا ہے۔ مرکز سے نائیڈو کے ٹکراؤ کے سبب بی جے پی نے کے سی آر کو استعمال کرلیا۔ کے سی آر جو بی جے پی اور کانگریس کے خلاف محاذ کی تیاری کا دعویٰ کر رہے تھے، بتدریج سیاسی حلقوں میں بی جے پی کے ہمدرد کی حیثیت سے ابھر رہے ہیں۔ 2015 ء میں پیش آئے ووٹ برائے نوٹ اسکام کی تحقیقات اینٹی کرپشن بیورو نے کی تھی جس میں چندرا بابو نائیڈوکے علاوہ رکن اسمبلی ریونت ریڈی ملوث ہیں۔ کے سی آر نے اینٹی کرپشن بیورو اور پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ اجلاس میں مقدمہ کی پیشرفت کا جائزہ لیا ۔ بتایا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ میں تلنگانہ کا موقف واضح کرنے کیلئے اجلاس طلب کیا گیا تھا ۔ ووٹ برائے نوٹ اسکام کے ذریعہ ایک ہی وقت میں چندرا بابو نائیڈو اور دوسری طرف ریونت ریڈی کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے ۔ ریونت ریڈی کانگریس میں شامل ہوچکے ہیں اور چیف منسٹر کے خلاف مہم میں پیش پیش ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ 2019 ء انتخابات تک کے سی آر اور نر یندر مودی میں قربت بڑھ جائے گی ۔