کے سی آر اور تھرڈ فرنٹ

احباب کی چاہت میں کہیں جھول رہا ہے
یہ میں نہیں زخموں کا لہو بول رہا ہے
کے سی آر اور تھرڈ فرنٹ
چیف منسٹر تلنگانہ کے چندرشیکھر راؤ کے نظریہ تھرڈ فرنٹ نے خود ان کی سیاسی ساکھ کو زندہ نگل لیا ہے۔ اتحاد بنانے کی کوشش میں انہوں نے اب تک کئی قائدین سے ملاقات کی چند نے ہاں کہا چند نے نا کہا۔ ممتابنرجی سے ملاقات کے بعد کے سی آر کی امیدیں مضبوط ہونے لگی تھیں مگر اب چیف منسٹر اوڈیشہ اور صدر بیجو جنتادل نوین پٹنائک اور سی پی آئی ایم نے تیسرے محاذ یا تھرڈ فرنٹ میں شامل ہونے سے انکار کردیاہے۔ اگر اس انکار کو کے سی آر کیلئے شدید دھکہ سمجھا جائے تو دہلی تک پہنچنے ان کا خواب پورا ہوسکے گا یہ کہنا مشکل ہے۔ کانگریس اور بی جے پی کے خلاف اپنا قومی خواب پورا کرنے میں وہ کامیاب ہوسکیں گے اس پر ٹی آر ایس کے بہی خواہوں کو غور کرنا پڑے گا۔ مرکز تک جانے کی آرزو کو پورا کرنے کیلئے ایک مضبوط سیاسی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اگر چیف منسٹر کے تھرڈ فرنٹ کے بارے میں ان کے ہم منصبوں اور سیاسی حلقوں میں کوئی ٹس سے مس نہیں ہورہا ہے تو حیرانی اس لئے نہیں ہوتی کہ جہاں ’’کالے کرتوت‘‘ والے موجود ہوں تو کالے قول ان کا کیا بگاڑیں گے کیوں کہ اس وقت سیاستدانوں میں سے ہر ایک کا ہاتھ کسی دوسرے کی جیب میں ہے۔ عوام بلاشبہ کسی بھی لیڈر کیلئے طاقت کا سرچشمہ ہوتے ہیں لیکن وہ کسی ایک یا سب کے ساتھ ہمیشہ نہیں رہیں گے۔ انہوں نے مخلوط حکومت یا سیاسی اتحاد کا دور 9 ویں لوک سبھا اور 11 ویں لوک سبھا کے دوران دیکھا ہے۔ عوام نے کانگریس یا بی جے پی کی مخلوط حکومتوں کو آزمایا ہے۔ انتخابی نتائج کے بعد کئے جانے والے سیاسی اتحاد میں طاقت اور استحکام کا مسئلہ نازک ہوتا ہے۔ بدلے سیاسی حالات میں ہونے والا اتحاد بھی غیرواضح ماحول پیدا کردیتا ہے۔ اس طرح کے اتحاد کا تجربہ دیکھنے والے رائے دہندوں کے سامنے اب اگر چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ ایک بڑی چھلانگ لگانا چاہتے ہیں تو ان کا سیاسی مستقبل مستحکم ہوگا یا جھکولے کھائے گا، اس کا اندازہ ابھی سے نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم اب تک کی کوششوں سے یہ واضح ہورہا ہیکہ انہیں سیاسی گوشوں سے خاطرخواہ تائید حاصل نہیں ہورہی ہے۔ جو پارٹیاں برسوں سے اقتدار کی آرزو میں دہلی سے ریاستوں کے درمیان دوڑ لگاتی رہی ہیں وہ چیف منسٹر کے سی آر کی کوششوں میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کریں گے۔ صدر ٹی آر ایس کی حیثیت سے کے سی آر نے اب تک ایک اچھے انتظامی صلاحیتوں کے حامل لیڈر کا مظاہرہ کیا ہے اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ علاقائی پارٹیوں کی طاقت اور حدود کیا ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے مغربی بنگال میں ممتابنرجی اور اوڈیشہ میں نوین پٹنائک اور کرناٹک میں سابق وزیراعظم دیوے گوڑا سے کافی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں لیکن انہیں مایوسی ہی ہوئی ہے۔ باوجود اس طرح کی مایوسی ہاتھ آنے کہ وہ اپنے خوابوں کو ترک نہیں کریں گے۔ ان کے اندر ایسا جذبہ موجود ہے جس کی مدد سے وہ اپنے خوابوں کا تعاقب کریں گے۔ اس کے لئے انہیں اپنے سیاسی عزائم کو تقویت دینے ماہر ترین سیاسی فزیوتھراپسٹ کی ضرورت ہوگی جس سے فارغ ہوکر انہیں کسی ماہر نفسیات کے پاس جانا ہوگا۔ دہلی کے خواب کی تعبیر کے لئے نیم دلانہ کوشش نہیں بلکہ مضبوط عزم کی ضرورت ہوتی ہے اور چیف منسٹر کے اندر یہ مضبوطی پائی جاتی ہے۔ صرف انہیں مضبوط سہارے کی کمی ہے۔ ان کے تھرڈ فرنٹ کے بارے میں مختلف رائے رکھنے والے لوگ ایسے ہیں جو کالی رات میں کالے چشمے پہن کر کالے کمرے میں کالی بلی ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ ان کو ساتھ رکھنا بہت بڑی غلطی ہوگی لہٰذا خوشامد کی سیاست چھوڑ کر اپنے علاقائی موقف کو اول طور پر مضبوط و مستحکم بنانا ہوگا۔ کیونکہ قومی سطح پر ہو یا علاقائی میدان میں نااہلیت کا مظاہرہ کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اگر نااہل عناصر گذشتہ 70 سال سے اس ملک کو تباہ کرتے آرہے ہیں تو ان کی جگہ تبدیل کرنے کی کوشش ایک دن نہ ایک دن کارگر ثابت ہوں گی۔ چیف منسٹر کے تھرڈ فرنٹ کی کوششوں پر تنقید کرنے والوں نے یہ بھی قیاس آرائی کی ہیکہ ٹی آر ایس اور بی جے پی میں خفیہ معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت ہی چیف منسٹر نے تھرڈ فرنٹ کے لئے سرگرمیاں شروع کردی ہیں تاکہ مرکز میں بی جے پی کو دوبارہ کامیابی مل سکے۔
سی پی آئی ایم میں نظریاتی جنگ
سی پی آئی ایم میں اگر آنے والے دنوں میں بڑا انتشار دیکھا جائے تو یہ بائیں بازو نظریات کے حامل افراد کیلئے افسوسناک واقعہ ہوگا۔ سی پی آئی ایم کی حیدرآباد میں منعقدہ کانگریس میں سیتارام یچوری اور پرکاش کرت کے حامیوں کے درمیان اختلافات ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ جن مسائل اور اختلاف رائے پر مثبت انداز میں سوچنے کی ضرورت ہے اس پر گروہ بندی کا زور لگایا گیا۔ سیکولر دشمن قوتوں کیلئے یہ واقعات خوشی کا باعث ہوں گے۔ ایسا معلوم ہوتا ہیکہ بائیں بازو نظریات کے حامل افراد کے اندر سیاسی ذہن سازشی میں کچھ خامیاں پیدا ہونا شروع ہوئی ہیں۔ اس لئے ہر بات میں کوئی غلط بات کوئی اندیشہ ڈھونڈ کر اس کی تشہیر بھی کی جارہی ہے۔ سی پی آئی ایم کے اندر بعض لوگوں نے یہ ثبوت دینے کی کوشش کی ہیکہ انہیں بھی اب ’’سیاست‘‘ کرنا آ گیا ہے مگر ان کی یہ سیاست ملک و قوم کے حق میں نہیں ہے صرف ایک گروہ کی ترقی کیلئے دکھائی دے رہی ہے۔ اس پارٹی میں جو نازک مسئلہ مرکزی موضوع بن گیا ہے اس میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ آیا سی پی ایم کو تمام سیکولر جمہوری طاقتوں کے ساتھ ہاتھ ملانا چاہئے یا نہیں۔ خاص کر بی جے پی کو ناکام بنانے کیلئے کانگریس کا ساتھ دیا جانا چاہئے۔ سیتارام یچوری کا گروپ کانگریس سے ہاتھ ملانا چاہتا ہے جبکہ پرکاش کرت گروپ کانگریس کے ساتھ کسی بھی قسم کی مفاہمت کا مخالف ہے۔ پارٹی کیلئے یہ صورتحال سب سے بڑا چیلنج بھرا مرحلہ ہے۔ ان قائدین نے گروہ واری سیاست کو ہوا دی ہے تو پارٹی کیلئے مستقبل میں کئی خطرات پیدا ہوں گے کیونکہ پہلے ہی پارٹی کو سیاسی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اب پارٹی کی اعلیٰ قیادت میں نظریاتی جنگ سب سے بڑا دھکہ ہوگی۔