میڈیکل کونسلنگ کے اچانک التواء پر مایوسی ، پرچہ کے افشاء پر شکوک و شبہات کو تقویت
حیدرآباد۔25جولائی ( سیاست نیوز) میڈیکل کونسلنگ کے اچانک التواء سے داخلوں کے منتظر طلبہ میں ایک مرتبہ پھر مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ میڈیکل میں داخلے کے خواہشمند طلبہ جو گذشتہ دو برسوں سے ایمسیٹ کی تیاری میں مصروف تھے انہیں نیٹ کے لزوم سے جھٹکہ لگا تھا اور اسی تناؤ کے بیچ طلبہ نے تلنگانہ ایمسیٹ ۔Iمیں حصہ لیا لیکن جب نیٹ کے لزوم کی برخواستگی عمل میں نہیں آئی تو طلبہ پر ایک مرتبہ پھر خوف کے سائے منڈلانے لگے اسی دوران مرکزی حکومت نے نیٹ کو ایک سال کیلئے کالعدم قرار دیتے ہوئے آرڈیننس جاری کر دیا جس کے نتیجہ میں طلبہ کو دوبارہ ایمسیٹ۔IIامتحان تحریر کرنا پڑا اور اس امتحان کے علاوہ کئی طلبہ نے نیٹ بھی تحریر کیا کیونکہ تا حال داخلہ کے خواہشمندوں پر یہ بات واضح نہیں ہو پائی ہے کہ ایمسیٹ اور نیٹ میں کامیاب ہونے والے طلبہ کو کن کالجس میں داخلے دیئے جائیں گے۔ اسی دوران ایمسیٹ۔IIکے پرچہ کے افشاء کے سبب موقوف کردہ کونسلنگ سے طلبہ میں ایک مرتبہ پھر بے چینی کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے اور اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ریاست میں اگر واقعی ایمسیٹ کے پرچہ کا افشاء ہوا ہے تو کیا ایک مرتبہ پھر ایمسیٹ۔IIIمنعقد کیا جائے گا؟ طلبہ کی جانب سے کئے جانے والے ان سوالات سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ طلبہ اور ماہرین تعلیم دونوں ہی عجیب و غریب صورتحال کا شکار ہیںاور کسی نتیجہ پر پہنچنے سے قاصر ہیں۔ ایمسیٹ۔IIتحریر کرنے والے طلبہ نے پرچہ کے متعلق کہا تھا کہ جس طرز سے پرچہ دیا گیا تھا وہ پہلے ایمسیٹ سے کافی سخت تھا لیکن دوسرے ایمسیٹ کے افشاء کی اطلاعات اور اس کی تحقیقات کے آغاز کے دوران اچانک کونسلنگ کے عمل کو روک دیئے جانے سے طلبہ کے شکوک و شبہات میں مزید اضافہ ہو گیا اور اب طلبہ میں پائی جانے والی غیر یقینی کیفیت کو فی الفور ختم کرنے کیلئے حکومت کی جانب سے سخت گیر اقدامات کئے جانا ضروری سمجھا جانے لگا ہے۔ اسی طرح ایمسیٹ ۔IIکے افشاء کی اطلاعات نے سی بی ایس سی کو متحرک کردیا اور نیٹ کیلئے سخت صیانتی انتظامات دیکھے گئے۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ اگر واقعی میں پرچہ کا افشاء ہوا تھا تو انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ ایمسیٹ۔IIIکا انعقاد عمل میں لایا جائے جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ پرچہ کے افشاء کو ثبوت دستیاب ہونے کے بعد رینک تبدیل کرنے پر اکتفاء کیا جا سکتا ہے لیکن کوئی یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ افشاء ہوا پرچہ کہاں تک پہنچا اور کتنے امیدواروں نے فائدہ اٹھایا۔