کیوں نہ ہو پیغمبرانہ صبر و ایثار حسینؓ

پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری

 

نواسۂ رسول صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کربلا کے میدان میں تنہا کھڑے ہیں۔ ہونٹوں پر تشنگی کے کانٹے چبھ رہے ہے۔ آسمان سے سورج آگ برسا رہا ہے۔ نینوا کے سینے پر فرات بہہ رہا تھا۔ آج نواسہ رسول حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے علاوہ یہ پانی ہر شخص کے لئے عام ہے۔ حضرت امام عالی مقام کے جاں نثار ایک ایک کرکے راہ میں توحید کی گواہی دیتے ہوئے جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ گلستان رسول اجڑ چکا ہے۔ چمنستان فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کو موت کی بے رحم ہواؤں نے اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے۔ عون و محمد بھی رخصت ہوچکے ہیں۔ عباس علمدار مقام شہادت پاچکے ہیں۔ شہزادہ قاسم موت کو گلے لگا چکے ہیں۔ شہزادہ علی اکبر کا بے گور و کفن لاشہ ریگ کربلا پر پڑا ہے۔ معصوم علی اصغر کا خون بھی فضائے کربلا کو رنگین کرگیا ہے۔ حضرت امام عالی مقام اپنے جاں نثاروں کے لاشے اٹھاتے اٹھاتے نڈھال ہو چکے ہیں، لیکن حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی شجاعت، بہادری اور جواں مردی پر ڈھلتی عمر کا سایہ بھی نہیں پڑا۔ شیر خدا کا شیر اپنے تمام اثاثے لٹانے کے بعد بھی استقامت کی تصویر بنا ہوا ہے۔ ایمان کی روشنی آنکھوں سے جھلک رہی ہے۔ چہرے پر اعتماد کا نور بکھرا ہوا ہے، گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں، حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا رکاب تھامتی ہیں۔ امام عالی مقام میدان کربلا میں تلوار لئے کھڑے ہیں، یزیدی عساکر پر خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ فرزند شیر خدا کا سامنا کرنے سے ہر کوئی کترا رہا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ مدمقابل کون کھڑا ہے۔ نواسہ رسول کو پہچانتے ہیں، ان کی عظمت اور فضیلت سے آگاہ ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ ان کے پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کا فرمان ہے کہ ’’حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں‘‘۔ وہ جانتے ہیں کہ نبض حسین نبض رسول ہے، لیکن مصلحتیں پاؤں کی زنجیر بنی ہوئی ہیں۔ مفادات نے ہونٹوں پر قفل ڈال دیا ہے۔ لالچ، حرص اور طمع نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال رکھا ہے اور وہ نواسۂ رسول صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کو قتل کرکے دربار یزید میں مسند شاہی کا قرب حاصل کرنے کے آرزومند ہیں۔ یزیدی لشکر میں سے کوئی نکل کر شہسوار کربلا کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہ کرسکا۔
یزیدی لشکر نے جاں نثاران حسین کی استقامت، شجاعت اور جرأت دیکھ کر انفرادی جنگ بند کردی تھی۔ جب حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ مقتل میں آئے تو اجتماعی حملہ جاری تھا، لیکن پورا لشکر بھی اجتماعی طورپر نواسہ رسول صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم پر حملہ کرنے سے ڈر رہا تھا۔ دور دور سے تیر چلاتے رہے۔ کئی گھنٹوں تک حضرت امام عالی مقام کے جسم پر تلوار کا زخم نہیں لگا، کیونکہ قریب آکر حضرت علی مرتضی کی شجاعت کے وارث سے جنگ کرنے کا کسی کو حوصلہ نہ ہوا۔ تیروں کی برسات میں حضرت امام عالی مقام کا جسم اطہر چھلنی ہو گیا۔ زخموں سے چور امام حسین پر چاروں طرف سے حملہ کیا گیا۔ شمر اور یزید کے بدبخت سپاہی قریب آگئے۔ یکبارگی حضرت امام حسین کو تلواروںکے نرغے میں لے لیا گیا۔ آخر مردانہ وار جنگ کرتے کرتے شہسوار کربلا گھوڑے سے نیچے آگئے۔ نیزوں اور تلواروں سے بھی امام عالی مقام کا جسم چھلنی کردیا گیا۔
زندگی کا آخری لمحہ آپہنچا، امام عالی مقام نے دریافت فرمایا کہ کونسا وقت ہے؟۔ جواب ملا نماز کا وقت ہے۔ فرمایا ’’مجھے اپنے مولا کے حضورآخری سجدہ کرلینے دو‘‘۔ خون آلود ہاتھوں سے تیمم کیا اور بارگاہ خداوندی میں سجدہ ریز ہوگئے۔ ’’باری تعالی! یہ زندگی تیری ہی دی ہوئی ہے، اسے تیری ہی راہ میں قربان کر رہا ہوں۔ اے خالق کائنات! میرا یہ آخری سجدہ قبول فرما‘‘۔ بدبخت شمر آگے بڑھا اور چاہا کہ حضرت امام عالی مقام کا سر تن سے جدا کردے کہ حضرت امام حسین نے فرمایا ’’اے میرے قاتل! ذرا مجھے اپنا سینہ تو دکھا، کیونکہ میرے نانا نے مجھے جہنمی کی نشانی بتائی تھی‘‘۔ امام ابن عساکر نے حضرت سیدنا امام حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا ’’میں ایک سفید داغوں والے کتے کو دیکھ رہا ہوں، جو میرے اہل بیت کے خون میں منہ مار رہا ہے‘‘۔ (کنز العمال)
محمد بن عمرو بن حسین بیان کرتے ہیں کہ ’’ہم سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کربلا کے دریا پر موجود تھے تو آپ نے شمر کے سینے کی طرف دیکھا اور فرمایا ’’اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ’’گویا میں اس سفید داغوں والے کتے کی طرف دیکھ رہا ہوں، جو میرے اہل بیت کے خون میں منہ مار رہا ہے‘‘ اور شمر برص کے داغوں والا تھا‘‘۔ (کنزالعمال)
حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے نشانی دیکھ کر فرمایا ’’ہاں یہ بدبختی تیرا ہی مقدر ہے‘‘۔ چنانچہ وہ بدبخت آگے بڑھا اور سر اقدس کو تن مبارک سے جدا کردیا۔ ادھر روح قفس عنصری سے پرواز ہوئی اور ادھر ندا آئی ’’اے اطمینان پاجانے والے نفس! تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آ کہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب)۔ یعنی ’’اے حسین! میں تجھ سے راضی ہو گیا۔ اے روح حسین! میرے پاس لوٹ آ، جنت کے دروازے کھلے ہیں، حور و غلمان تیرے منتظر ہے، قدسیان فلک تیرے انتظار میں ہیں‘‘۔
حضرت سیدنا امام عالی مقام رضی اللہ عنہ اپنا سارا گھرانہ اللہ کی راہ میں قربان کرچکے ہیں۔ اسلام کی عزت و حرمت پر حضرت علی اصغر جیسے معصوم فرزند کی بھی قربانی دے چکے ہیں۔ اپنی جان کا نذرانہ دے کر توحید الہی کی گواہی دے چکے ہیں۔ آپ مقام صبر و رضا پر استقامت سے ڈٹے رہے۔ قدسیان فلک متحیر ہیں کہ پیکران صبر و رضا ایسے بھی ہوتے ہیں؟۔
امام عالی مقام نے اپنے نانا اور والد کے خون اور اپنی والدہ محترمہ کے دودھ کی لاج رکھ لی۔ حسین کامیاب ہو گئے، حسینیت زندہ ہو گئی۔ واقعی یہ خانوادہ اور اس کا عالی وقار سربراہ، اس ذبح عظیم کا سزاوار ہے۔ آج حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی روح بھی رشک کر رہی تھی کہ یہ شرف بھی ان کی نسل کے ایک فرد فرید کے حصے میں آیا۔ حصرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ راہ خدا میں نذرانہ جان پیش کرکے اور ملوکیت اور آمریت کے اندھیروں میں اپنے خون کے چراغ روشن کرکے ذریت ابراہیمی کی محافظت کی علامت بن گئے۔ شہادت عظمیٰ نے انھیں ولایت مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا نشان بنا دیا۔ حضرت امام حسین قیامت تک کے لئے اسلام کی حفاظت کا ستون بن گئے۔ (سلسلہ سپلیمنٹ کے صفحہ ۲پر )
شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ، تاریخ انسانی کا ایک غیر معمولی واقعہ ہے کہ پیغمبر کے پیرو کاروں نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کو بے دردی سے شہید کرکے ان کا سر اقدس نیزے پر اٹھایا۔ صرف یہی نہیں، بلکہ خاندان رسول کے شہزادوں اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں کو بھی اپنے انتقام کا نشانہ بناکر انھیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ان کا جرم یہ تھا کہ وہ ایک فاسق و فاجر کی بیعت کرکے دین میں تحریف کے مرتکب نہیں ہوئے تھے۔ انھوں نے اصولوں پر باطل کے ساتھ سمجھوتہ سے صاف انکار کردیا تھا۔ انھوں نے انسان کے بنیادی حقوق کے غاصبوں کی حکومت کی توثیق کرنے کی بزدلی نہیں دکھائی تھی۔ حضرت حسین بن علی اور ان کے ۷۲ جاں نثاروں کے خون سے کربلا کی ریت ہی سرخ نہیں ہوئی، بلکہ اس سرخی نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
محدثین بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی شہادت پر نہ صرف دنیا روئی، بلکہ زمین اور آسمان نے بھی آنسو بہائے۔ شہادت حسین پر آسمان بھی نوحہ کناں تھا۔ انسان تو انسان، جنات نے بھی مظلوم کربلا کی نوحہ خوانی کی۔ محدثین بیان کرتے ہیں کہ نواسہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کے وقت بیت المقدس میں جو پتھر اٹھایا گیا، اس کے نیچے سے خون نکلا۔ شہادت حسین کے بعد ملک شام میں بھی جس پتھر کو ہٹایا گیا، اس کے نیچے سے خون کا چشمہ ابل پڑا۔ محدثین فرماتے ہیں کہ شہادت حسین پر پہلے آسمان سرخ ہو گیا اور پھر سیاہ ہو گیا۔ ستارے ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے، یوں لگتا تھا جیسے کائنات ٹکراکر ختم ہو جائے گی۔ یوں لگا جیسے قیامت قائم ہو گئی ہو اور دنیا پر اندھیرا چھا گیا۔
امام طبرانی نے ابو قبیل سے سند حسن کے ساتھ روایت کیا ہے کہ ’’جب سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا تو سورج کو شدید گہن لگ گیا، حتی کہ دوپہر کے وقت تارے نمودار ہو گئے، یہاں تک کہ انھیں اطمینان ہونے لگا کہ یہ رات ہے‘‘۔ (معجم الکبیر)
امام طبرانی نے معجم الکبیر میں جمیل بن زید سے روایت کی ہے، انھوں نے کہا کہ ’’جب حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا تو آسمان سرخ ہو گیا‘‘۔ عیسی بن حارث الکندی سے مروی ہے کہ ’’جب امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا گیا تو ہم سات دن تک ٹھہرے رہے۔ جب ہم عصر کی نماز پڑھتے تو ہم دیواروں کے کناروں سے سورج کی طرف دیکھتے تو گویا وہ زرد رنگ کی چادریں محسوس ہوتا اور ہم ستاروں کی طرف دیکھتے تو ان میں سے بعض، بعض سے ٹکراتے‘‘۔ (معجم الکبیر)
امام طبرانی نے معجم الکبیر میں محمد بن سیرین سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں ’’حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے وقت آسمان پر سرخی چھائی رہی‘‘۔ حضرت سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیدہ فرماتی ہیں ’’میں نے جنوں کو سنا کہ وہ حسین بن علی کے قتل پر نوحہ کر رہے ہیں‘‘۔ (معجم الکبیر)
امام طبرانی نے زہری سے روایت کیا ہے کہ ’’شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے دن شام میں جو بھی پتھر اٹھایا جاتا تو وہ خون آلود ہوتا‘‘۔ (معجم الکبیر)