کیرالا کی فی الفور امداد ضروری

کیرالا کی فی الفور امداد ضروری
کیرالا میں سیلاب کی صورتحال مسلسل سنگین ہوتے جارہی ہے۔ مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہزاروں افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔ ریاست کے تمام 14 اضلاع کے لئے ریڈ الرٹ جاری کیا گیا۔ کیرالا میں مسلمانوں کی اکثریتی والے علاقہ زیرآب آچکے ہیں یہاں کے مسلمان ہمیشہ کارخیر اور امدادی کاموں میں آگے رہتے تھے آج وہ خود بارش کے قہر کا شکار ہوکر بے یار و مددگار ہوگئے ہیں۔ حکومت نے عوام سے اپیل کی کہ وہ اس نازک گھڑی میں پریشان حال کیرالا کے عوام کو راحت پہونچانے کے لئے آگے آئیں۔ بلاشبہ ملک بھر کی این جی اوز، ریاستی حکومت اور مرکز نے کیرالا کی عوام کی مدد کا اعلان کیا ہے۔ ریاست تلنگانہ کے چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے بھی سیلاب سے متاثرہ عوام کو راحت پہونچانے اور امدادی کاموں کے فوری طور پر 25 کروڑ روپئے کی مالی اعانت کا اعلان کیا ہے۔ چیف سکریٹری تلنگانہ ایس کے جوشی کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ فوری اس امدادی رقم کو ریاست کیرالا کے حوالے کرنے میں پہل کریں۔ چیف منسٹر کے سی آر نے تلنگانہ میں تمام صنعتکاروں، بڑے تاجروں اور دیگر اداروں سے خواہش کی ہے کہ وہ کیرالا کے لئے امداد کا اہتمام کریں۔ یہ تمام انسانوں کی ذمہ داری ہے کہ اس نازک گھڑی میں ہر انسان کیرالا کے سیلاب زدہ علاقوں میں متاثرین تک امداد پہونچانے کی جنگی بنیادوں پر کوشش کریں۔ کیرالا کے مسلمانوں اور دیگر شہریوں کو آج بروقت راحت کی ضرورت ہے۔ کیرالا کے مسلم اکثریتی علاقہ پوری طرح زیرآب آچکے ہیں۔ یہاں کی مسلم تنظیمیں کل تک ملک بھر میں امدادی کاموں اور فلاحی اقدامات کا شاندار ریکارڈ رکھتی تھیں لیکن آج وہ اپنی ہی ریاست کو لاحق سیلاب کی تباہ کاریوں سے خود کو اور اپنے اطراف و اکناف کے انسانوں کو بچانے سے بے بس ہیں۔ ایسے میں تمام ہندوستانیوں کو متحد ہوکر امدادی کاموں کے لئے جوق درجوق آگے آنا ہوگا۔ چیف منسٹر کیرالا پنیرائی وجین نے عوام پر زور دیا کہ وہ ریلیف فنڈ میں تعاون کریں۔ ہندوستان کی مسلم تنظیمیں ہمیشہ ہی مصیبت کے وقت ہندوستانی عوام کا ساتھ دیا ہے خاص کر جماعت اسلامی، جمعیت العلماء نے امدادی کاموں کے ذریعہ انسانوں کی مدد کی ہیں۔ اس مرتبہ بھی کیرالا کے لئے یہ تنظیمیں سرگرم ہیں۔ ان کا ساتھ دینا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ آنے والے دنوں میں قربانی جیسے عظیم ایام کے دوران اگر ہر مسلمان کیرالا کے مسلمانوں اور وہاں کے دیگر شہریوں کی مصیبتوں کا خیال کرکے امدادی اقدامات کرتا ہے تو یہ بڑا نیک اور مستحسن کام ہوگا۔ سیلاب نے کیرالا کی بڑی ندیوں اور ڈیمس کو سنگین طغیانی کا خطرہ پیدا کردیا ہے۔ کئی ڈیمس کھول دیئے گئے ہیں جس سے کئی بستیاں زیرآب آسکتی ہیں۔ اس باعث وسیع علاقہ میں مزید تباہی پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ ہزاروں مکانات اور وسیع زرعی علاقہ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوکر رہ جائیں گی۔ کیرالا میں آنے والی اس تباہی کے لئے حکومت کی لاپرواہی کو ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔ گزشتہ 90 سال میں اس طرح کا برا سنگین سیلاب نہیں آیا تھا۔ اگسٹ کے اوائل سے ہونے والی موسلا دھار بارش نے 350 سے زائد جانیں لی ہیں۔ 53000 افراد کو 439 ریلیف کیمپوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ چیف منسٹر وجین کے مطابق ریاست کو 8316 کروڑ روپئے کا نقصان ہوا ہے۔ 1924 ء کے بعد سے تاریخ کا یہ سب سے خطرناک سیلاب ہے۔ کیرالا کے محل وقوع اور اس کے حساس زونس کو مدنظر رکھ کر ہی گاؤگل کمپنی نے جو ویسٹرن گھاٹس ایکولوجی اکسپرٹ پیانل کی قیادت کررہی تھی رپورٹ میں کیرالا کے ماحولیاتی صورتحال کو بچانے کی سفارش کی تھی۔ اس کمیٹی نے مغربی گھاٹوں کے 140000 کیلو میٹر فاصلے کو 3 زونس میں تقسیم کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا تاکہ ماحولیات کا تحفظ کرنے میں سہولت ہوسکے۔ اس کمیٹی نے ریاست کے حساس مقامات پر مائننگ اور کیورنگ (کان کنی اور کھدوائی) پر پابندیاں عائد کرنے کی بھی سفارش کی تھی۔ اس کے علاوہ اراضیات کو غیر جنگلاتی مقاصد کے استعمال کو روکنے اور بلند عمارتوں کی تعمیر پر پابندی کی بھی سفارش کی تھی لیکن 2011 ء میں حکومت کو پیش کردہ اس گاؤگل رپورٹ پر کوئی توجہ نہیں دی گئی بلکہ کیرالا حکومت نے کمیٹی کی رپورٹ کو مسترد کرکے اس کی سفارشات میں سے کسی کو بھی قبول نہیں کیا۔ گاؤگل نے کیرالا کی سیلاب زدہ صورتحال کے لئے غیر ذمہ دارانہ ماحولیاتی پالیسی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور یہ تباہی خود انسانوں کی لائی ہوئی ہے۔ کیرالا کے سیلاب کی صورتحال ان تمام ریاستوں کے لئے آنکھ کھول دینے کے لئے کافی ہے جو جغرافیائی طور پر سیلاب کے خطرات کے لئے حساس سمجھی جاتی ہیں۔ حکومت کو اس خصوص میں اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار نہیں ہونا چاہئے۔ آج کیرالا کو فی الفور انسانی ہمدردی کے مظاہرہ کی ضرورت ہے اس کے بعد حکومت اور سائنس و موسمیاتی اداروں کو چوکس ہوکر حفاظتی و احتیاطی اقدامات کرنے ہوں گے۔
وزیراعظم پاکستان کی حیثیت سے عمران خان کی ذمہ داریاں
کرکٹر سے سیاستداں بننے والے عمران خان نے بالآخر پاکستان کا اقتدار سنبھال لیا ہے۔ پاکستانی سیاست میں ان کی 22 سال کی جدوجہد اور مسلسل سیاسی، سماجی و فلاحی کاموں میں ان کی مصروفیات نے انھیں پاکستانی رائے دہندوں کو بہت قریب کردیا تھا۔ انھوں نے اپنے رائے دہندوں سے جو وعدے کئے ہیں اب ان وعدوں کو پورا کرنے کا وقت شروع ہوا ہے۔ دنیا بھر میں پاکستان کی اب تک کی جو امیج ہے اس کو بہتر بنانے کے لئے انھیں دیانتدارانہ و ایماندارانہ کام انجام دینے ہوں گے۔ کرپشن، دہشت گردی اور معاشی ابتری ان 3 اہم مسائل سے نمٹنا اور پاکستانی عوام کو ان لعنتوں سے چھٹکارا دلانے میں وہ اپنی صلاحیتوں کو کس ھرح بروئے کار لائیں گے یہ آنے والے دنوں میں پتہ چلے گا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کو آج جن وجوہات کے باعث جیل جانا پڑا ہے اس کا احیاء عمران خان کی حکومت میں نہ ہوتا ہے تو یہ پاکستان میں ایک اہم تبدیلی سمجھی جائے گی کیوں کہ اب تک پاکستان کی حکومتوں پر کرپشن کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ اگرچیکہ عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف کو قطعی اکثریت حاصل نہیں ہوئی ہے اور انھیں مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا پڑا ہے لیکن پاکستان میں حالیہ برسوں کے دوران دیکھا گیا ہے کہ مفاہمت کی سیاست نے بدعنوانی کو فروغ دیا ہے۔ اس طرح کی بدعنوانی کا عمران خان کے دور میں احیاء نہ ہوتا ہے تو یہ پاکستان اور پاکستانی عوام کے مستقبل کے لئے واقعی بہت بڑی تبدیلی ہوگی۔