کیرالا سیلاب متاثرین کی امداد میں آر ایس ایس کی مذہبی منافرت

مرکزی و ریاستی حکومتوں پر بھی منفی اثر، فرمانروا قطر کی کثیر امداد کے باوجود افسوسناک ٹوئیٹر ریمارکس
حیدرآباد۔19اگسٹ(سیاست نیوز) آفات سماوی کا شکار افراد کی امداد میں بھی منافرت کی نئی مثالیں کیرالہ میں قائم کی جا رہی ہیں اور کیرالہ کے سیلاب متاثرین کی امداد کے سلسلہ میں آر ایس ایس اور آر ایس ایس کے نظریات رکھنے والوں کی جانب سے چلائی جانے والی مہم سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ تنظیم اس مصیبت کے دور میں بھی مذہبی منافرت کے فروغ اور کیرالہ عوام کی جانب سے ان کے ہندو توا نظریات کو مسترد کئے جانے کے سبب ان سے نفرت کا پرچار کر رہی ہے۔ حکومت ہند کی جانب سے کیرالہ سیلاب متاثرین کی راحت کیلئے 500 کروڑ کی تخصیص سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت پر بھی اس مہم کا اثر ہے کیونکہ کیرالہ میں جانی نقصان کے علاوہ جو نقصانات کا تخمینہ لگایا گیا ہے وہ 20ہزار کروڑ سے زیادہ ہے لیکن مرکز میں بی جے پی زیر اقتدار این ڈی اے حکومت کی جانب سے وزیر اعظم نے صرف 500 کروڑ کے خصوصی فنڈس کا اعلان کیا ہے ۔ جبکہ بحران کا سامنا کر رہے قطر کی جانب سے 5.2ملین امریکی ڈالر کیرالہ کے سیلاب میں راحت کاری کاموں کے لئے مختص کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔وزیر امور داخلہ قطر عبداللہ بن ناصر بن خلیفہ آل ثانی نے اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ کے ذریعہ اس بات سے مطلع کیا کہ فرمانرواں قطر تمیم بن حماد نے ہندستانی ریاست کیرالہ میں سیلاب کی بدترین صورتحال کا سامناکر رہے ہمارے بھائیوں کی امداد اور راحت کاری کاموں کے لئے 5.2ملین ڈالر کی تخصیص عمل میں لائی گئی ہے ۔ تمیم بن حماد اور ان کی کابینہ کی جانب سے اس سیلاب کے دوران مہلوکین کے اہل خانہ اور متاثرین سے اظہار یگانگت کرتے ہوئے اس بات کا یقین دلایا کہ قطر اپنے پریشان حال ہندستانی بھائیوں کے ساتھ ہے۔ اسی طرح فرمانرواں دبئی الشیخ محمد بن راشد المختوم کے ٹوئیٹر اکاؤنٹ کا جائزہ لیا جائے تو انہوںنے نہ صرف کیرالہ کی تباہی سے نمٹنے میں تعاون کے لئے کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کیا ہے بلکہ انہوں نے اپنے شہریوں سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ کیرالہ میں سیلاب سے پریشان حال اپنے ہندستانی بھائیوں کی مدد کیلئے ممکنہ تعاون کریں اور عیدالاضحی کے موقع پر سیلاب زدگان کو فراموش نہ کریں کیونکہ کیرالہ دبئی کی ترقی اور کامیابی میں انتہائی اہم رول رکھتا ہے۔ الشیخ محمد بن راشد المختوم کے ٹوئیٹر پر نہ صرف عربی زبان میں کیرالہ کے حالات پر ٹوئیٹ موجود ہیں بلکہ انہوں نے انگریزی اور ملیالی زبان میں بھی ٹوئیٹر پیغامات کے ذریعہ سیلاب متاثرین سے اظہار یگانگت اور ان کی مدد کی اپیلیں جاری کی ہیں۔اس کے برعکس خود ہندو توا اور منافرت پھیلانے والے نظریات کے حامل افراد کے ٹوئیٹر کھاتوں کی تفصیل کا مشاہدہ کیا جائے تو اس بات کا اندازہ ہوگا کہ کس طرح سے منافرت پھیلائی جارہی ہے۔ ملہوترا جو کہ ہندو توا نظریات کا حامل رائٹر ہے اس نے اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ کے ذریعہ اپیل کی ہے کہ ہندو متاثرین کی مدد کی جائے جبکہ مسلمانوں کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح بعض دیگر ہندو توا نظریات کے حامل افراد کی جانب سے یہ لکھا جا رہاہے کہ کیرالہ فساد کے متاثرین کی مدد کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ کیرالہ میں ’’بیف فیسٹیول ‘‘ منایا جاتا ہے ‘ کسی نے تحریر کیا ہے کہ حکومت ہند کو کیرالہ میں کوئی راحت کاری کام انجام نہیں دینے چاہئے کیونکہ کیرالہ کے عوام بائیں بازو نظریات کے حامل ہیں اور سیلاب کی تباہی ان کا مقدر ہے۔ اس طرح کے افسوسناک ٹوئیٹر پیغامات خود ہندستانی شہریوں کی جانب سے کئے جانے سے ایسامحسوس ہوتا ہے کہ ہندوتوا نظریات کے حامل افراد کو انسانی جانوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ کیرالہ عوام کی مصیبت کی اس گھڑی میں ملک کی کئی ریاستوںکی جانب سے حکومت کیرالہ کو راحت کاری اقدامات کیلئے رقمی امداد روانہ کی جا رہی ہے لیکن ان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار والی ریاستوں کی جانب سے کوئی راحت کاری اقدامات کے اعلان کی اب تک تفصیل سامنے نہیں آئی ہے جبکہ خود سیلاب کی صورتحال کا سامنا کررہے کرناٹک نے بھی سیلاب متاثرین کی راحت کیلئے امداد کی روانگی کا اعلان کیا ہے۔ کیرالہ سیلاب متاثرین کیلئے ابو ظہبی کے فرما رواں خلیفہ بن زید النیہان نے بھی اپنی فلاحی تنظیم کی جانب سے راحت کاری کاموں کا اعلان کیا ہے اور کہا جا رہاہے کہ ابوظہبی کی جانب سے بھی کیرالہ کے سیلاب متاثرین کی امداد کیلئے بڑے پیاکیج کا اعلان کیا جاسکتا ہے۔کیرالہ سیلاب متاثرین کی مصیبت کی اس گھڑی میں ان کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہونے کے بجائے ہندوتوا ذہنیت کے حامل افراد کی جانب سے کئے جانے والے ریمارکس سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ وہ کیرالہ میں پریشانیوں کا سامنا کرنے والوں کی پریشان حالی پر خوش ہیں اور جشن منا رہے ہیں جبکہ مسلم ممالک کی جانب سے کیرالہمیں راحت کاری اور بازآبادکاری کے علاوہ متوفی افراد کے خاندانوں سے ہمدردی اور زخمیوں کے علاج و معالجہ کی فکر کی جا رہی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فرقہ وارنہ خطوط پر ملک کو بانٹنے کی اندرون ملک کوشش کس حد تک تیز ہوتی جا رہی ہے۔