کیا یہی ترقی ہے ؟

انصاف ظالموں کی حمایت میں جائے گا
یہ حال ہے تو کون عدالت میں جائے گا
کیا یہی ترقی ہے ؟
لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی اور اس کے لیڈر نریندر مودی نے ترقی کا نعرہ لگاتے ہوئے ملک کے عوام کو سبز باغ دکھائے ۔ ان کو ہتھیلی میں جنت دکھائی ۔ بلند بانگ دعوے کئے اور ان کے ووٹ حاصل کئے ۔ اپن بل پر بی جے پی کو اکثریت حاصل ہوگئی اور اس نے دیگر جماعتوں کو بھی ساتھ لیتے ہوئے این ڈی اے کی حکومت تشکیل دی ۔ حکومت کی تشکیل کے بعد سے بھی سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعرے دئے گئے ۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی ہوں یا وزیر فینانس ارون جیٹلی ہوں یا وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ ہوں یا پھر وزیر خارجہ سشما سواراج ہوں سبھی نے یہ ادعا کیا کہ مرکزی حکومت ملک کو ترقی کی منازل طئے کروانا چاہتی ہے اور ملک کے عوام کی فلاح و بہبود ہی اس کی اولین ترجیح ہے ۔ وزیر اعظم وقفہ وقفہ سے بیان دیتے ہیں کہ حکومت سب کو ساتھ لے کر چلے گی ۔ وزیر داخلہ بیان دیتے ہیں کہ کسی کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جائیگا ۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ حالات کی باگ ڈور اب خود وزیر اعظم مودی کے ہاتھ میں نہیں رہی ہے ۔ اب وہ خود آر ایس ایس اور دوسری فرقہ پرست تنظیموں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن گئے ہیں اور اب انہیں حساس اور ملک کو درپیش انتہائی سلگتے ہوئے مسائل پر بھی لب کشائی کیلئے ناگپور سے منظور حاصل کرنی پڑتی ہے ۔ ترقی کے نعرے لگانے اور دعوے کرنے والی حکومت کے ابتدائی چھ ماہ میں ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کا واضح اعلان کیا جارہا ہے جبکہ دستور ہند میں ملک کو سکیولر قرار دیتے ہوئے سبھی مذاہب کے ماننے والوں کو مساوی درجہ دینے کی ضمانت دی گئی ہے ۔ اس طرح یہ حکومت جس نے دستور کے نام پر حلف لیا ہے وہی دستور کی خلاف ورزی کرتی جا رہی ہے اور فرقہ پرست تنظیمیں دستور کی دھجیاں اڑا رہی ہیں ۔ حکومت ان کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے اپنی خاموشی سے ان کی راست اور بالواسطہ طور پر حوصلہ افزائی کر رہی ہے ۔ ترقی کا نعرہ لگانے والے فرقہ پرستی کی بھول بھلیوں میں کھو گئے ہیں اور انہیں باہر نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ فرقہ پرستی ایک ایسا زہر ہے جس سے ملک کی جڑیں کھوکھلی ہوتی ہیں اور ملک ترقی کی راہ پر چند قدم بھی نہیں چل سکتا ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو حکومت قبول کرنے کو تیار نظر نہیں آتی ۔
آج ملک میں مسلمانوں کا مذہب جبری طور پر تبدیل کیا جارہا ہے ۔ انہیں مختلف طرح کے لالچ دئے جا رہے ہیں یا دھمکایا جا رہا ہے ۔ عیسائیوں کو جبری طور پر ہندو بنایا جا رہا ہے ۔ انہیں بھی مجبور کیا جا رہا ہے ۔ آج دستور ہند کی دھجیاں اڑاتے ہوئے یہ اعلان کیا جا رہا ہے کہ ملک کو ہندو راشٹر بنادیا جائیگا ۔ کسی کونے سے یہ آواز آتی ہے کہ 2021 تک اس ملک میں اسلام اور عیسائیت کا خاتمہ ہوجائیگا ۔ کسی کونے سے خاموش کے ساتھ یکساں سیول کوڈ کے نفاذ پر مباحث کا آغاز کردیا جاتا ہے ۔ ملک کی وزیر خارجہ بیان دیتی ہیں کہ بھگود گیتا کو قومی کتاب قرار دیا جانا چاہئے ۔ ایک ریاست کے گورنر اپنے دستوری عہدہ کا لحاظ کئے بغیر کہتے ہیں کہ بابری مسجد کے مقام پر رام مندر تعمیر ہونا چاہئے اور شائد آئندہ پانچ سال میں یہ مندر بننے کی راہ بھی ہموار ہوجائیگی ۔ اصل سوال یہ ہے کہ ان ساری باتوں کا ترقی کے نعرہ سے کیا تعلق ہے ؟۔ کیا خود وزیر اعظم ‘ وزیر داخلہ ‘ وزیر فینانس یا وزیر خارجہ یہ وضاحت کرسکتے ہیں کہ مسلمانوں کو ہندو بناتے ہوئے کس طرح ترقی کی جاسکتی ہے ۔ کس طرح سے یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے ذریعہ ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں آگے کیا جاسکتا ہے ۔ یکساں سیول کوڈ کس طرح سے بیرونی سرمایہ کاری حاصل کرنے میں معاون ہوسکتا ہے اے رام مندر کو کس طرح سے کوئی کارپوریٹ کارنامہ بناکر پیش کیا جاسکتا ہے جس کو قبول کرتے ہوئے دنیا کی بڑی کمپنیاں ہندوستان آئیں گی ۔ کس طرح بھگود گیتا کو ملک کے دستور پر ترجیح دیتے ہوئے ترقی کے اصول و ضوابط تیار کئے جاسکتے ہیں ؟ ۔
ترقی کے نعرے لگانے والی حکومت ترقی کی راہ میں بنیادی طور پر رکاوٹ بننے والے عناصر کو اپنی خاموشی کے ذریعہ تائید فراہم کر رہی ہے ان کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے ۔ حکومت کو ملک کے عوام کو یہ جواب دینا چاہئے کہ ترقی کے معنی اس کی ڈکشنری میں کیا ہیں ۔ ترقی کے نام پر فرقہ پرستی کو عروج دینے کا جواز کیا ہوسکتا ہے ۔ حکومت کو اقتدار پر آئے صرف چھ ماہ ہوئے ہیں اور ملک میں فرقہ پرست تنظیموں نے سیاسی و سماجی اتھل پتھل کا آغاز کردیا ہے ۔ یہ اتھل پتھل ملک کی ترقی میں معاون نہیں ہوسکتی بلکہ ترق کے سفر کو رکاوٹوں کا شکار کردیگی ۔ اگر حکومت کی نظر میں مسلمانوں کو جبرا ہندو بنانا سب کا ساتھ لینے کے برابر ہے تو ملک کے مسلمانوں کو ایسے ساتھ کی قطعی ضرورت نہیں ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اگر واقعی ملک کی ترقی کو یقینی بنانا چاہتی ہے تو اپنی ترجیحات کو بدلے اور فرقہ پرست طاقتوں پر لگام کسے جو ملک کا سکون درہم برہم کرنے پر تلی ہوئی ہیں ۔