کیا ڈر کا ماحول ختم ہوگا ؟

اہلِ زر کے واسطے تو اک کھلونا ہے حقیر
زندگی تیرا بھرم مجبور و لاچاروں سے ہے
کیا ڈر کا ماحول ختم ہوگا ؟
نریندر مودی نے ہندوستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے دوسری مرتبہ ذمہ داری سنبھال لی ہے ۔ انہیں انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل ہوئی ہے اور لگاتار دوسری مرتبہ اکثریتی رائے والی حکومت مودی کی قیادت میں قائم ہوچکی ہے اور اس نے اپنے وزرا بھی نامزد کردئے ہیں اور ان میں قلمدانوںکی تقسیم بھی عمل میںآچکی ہے ۔ نریندرمودی نے اپنی حلف برداری سے قبل این ڈی اے قائدین سے خطاب کرتے ہوئے ملک کی اقلیتوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی اور کہا کہ ان کے خیال میں ملک کی اقلیتیں ڈر و خوف کے سائے میں زندگی گذار رہی ہیں اور اس ڈر و خوف کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ ویسے تو نریندر مودی اپنی تقاریر کیلئے اور لبھانے والے جملے کہنے کیلئے شہرت رکھتے ہیں اور کہا یہی جارہا ہے کہ انہوں نے این ڈی اے قائدین کے ساتھ اجلاس میں اسی طرح کا ایک جملہ کہا ہے ۔ تاہم ایک بار ضرور ہے کہ یہ اعتراف خود وزیر اعظم کرچکے ہیں کہ ملک کی اقلیتیں ڈر و خوف کے عالم میں زندگی گذار رہی ہیں۔ دیکھنا یہ چاہئے کہ یہ ڈر آخر کس نے پیدا کیا ہے اور اس کے ذمہ دار کون ہیں۔ کون ہیں وہ عناصر جو مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو اس ملک میں دوسرے درجہ کا شہری بنانے ‘ ان کے حق رائے دہی کو چھیننے ‘ انہیں سرکاری ملازمتوں سے محروم کردینے ‘ ان کا عرصہ حیات تنگ کرنے ‘ ان کے کاروبار اورتجارت کو متاثر کرنے کی کوششوں میں شبانہ روز مصروف ہیں۔ کیا یہ وہی عناصر نہیں ہیں جو آج نریندر مودی کے آس پاس ایک حلقہ بنائے ہوئے ہیں۔ کیا یہ وہی قائدین نہیں ہیں جو اپنی تقاریر کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔ کیا ان قائدین کو بی جے پی نے آگے نہیں بڑھایا ہے ۔ ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی ہے اور انہیں دستوری و قانونی عہدے نہیں سونپے ہیں ؟ ۔مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے اور انہیں کھلے عام ڈرانے و خوفزدہ کرنے والے قائدین کو بی جے پی نے پارلیمنٹ تک پہونچا دیا ہے ۔ انہیں وزارتیں تک بھی دی گئی ہیں اور اگر وزیر اعظم مسلمانوں اور اقلیتوں کے ڈر و خوف کو دور کرنے کی بات کرتے ہیں تو اس میں سنجیدگی دکھائی نہیں دیتی ۔
کہا جاتا ہے کہ جہاں جاگیں وہیںسویرا ۔ اگر اب بھی نریندر مودی کو یہ احساس ہوا ہے کہ اس ملک کی اقلیتوں میں خوف پیدا کیا گیا ہے تو انہیں واقعی سنجیدگی کے ساتھ اس کو دور کرنے کیلئے بحیثیت وزیر اعظم ہند کوششیں کرنی چاہئیں۔ صرف زبانی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے اگر وہ اپنی شبیہہ کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ایسا ممکن نہیں ہوسکتا ۔ اگر وہ اپنی شبیہہ بہتر بنا بھی لیں تب بھی ملک کی اقلیتوں میں پایا جانے والا عدم تحفظ کا احساس دور نہیں کیا جاسکتا اور اس احساس کو دور کرنے کی ذمہ داری وزیر اعظم اور حکومت دونوں پر عائد ہوتی ہے ۔ ملک کی اقلیتوں کے ساتھ انصاف کیا جانا چاہئے ۔ انہیں اعتماد میں لیتے ہوئے ان کی فلاح و بہبود پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں نشانہ بنانے کی جو کوششیں ہوتی رہتی ہیں ان سے سختی سے نمٹا جانا چاہئے ۔ جو لوگ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں ان پر لگام کسی جانی چاہئے چاہے وہ کسی ریاست کے چیف منسٹر ہی کیوں نہ ہوں یا پھر مرکز میں کوئی اہم قلمدان ہی کیوں نہ رکھتے ہوں۔ ایسااسی وقت کیا جاسکتا ہے جب حکومت اس تعلق سے سنجیدہ ہو اور واقعی کوئی ایسی حکمت عملی پر کام کرنا چاہتی ہو جس کے ذریعہ ملک کی اقلیتوں میں پائے جانے والے ڈر و خوف کو ختم کیا جاسکے ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ بی جے پی اقتدار میں ہر اہم ادارہ سے اقلیتوں کو عملا دور کیا جا رہا ہے ۔ بی جے پی اپنے جو امیدوار میدان میں اتارتی ہے ان میں کوئی مسلمان شائد ہی موجود ہوتا ہے ۔ اگر کوئی مرکزی وزارت میں شامل بھی کیا جاتا ہے تو اس کو کوئی اہم ذمہ داری نہیں سونپی جاتی ۔ مختار عباس نقوی جیسے کسی فرد واحد کو وزارت دے کر مسلمانوں کی فلاح یا ان کے ڈر و خوف کو ختم کرنے کا دعوی نہیں کیا جاسکتا ۔ حکومت کو اور خاص طور پر وزیر اعظم کو چاہئے کہ وہ مسلمانوں یا ملک کی تمام اقلیتوں میں احساس عدم تحفظ کو ختم کرنے پر توجہ دیںا ور جو لوگ ان کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں ان پر لگام کسیں ۔ اقلیتوں کو روزگار اور تجارت کے مساوی مواقع فراہم کئے جائیں۔ ان کے تمام دستوری حقوق فراہم کئے جائیں۔