یروشلم ۔22جنوری ( سیاست ڈاٹ کام ) امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارت کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد اپنی افتتاحی تقریر میں کہا ہے کہ وہ اب صرف امریکہ کے مفاد کے لیے کام کریں گے۔انھوں نے کہا کہ ان کی توجہ امریکہ کی سرحدوں کو محفوظ کرنے پر مرکوز ہو گی اور دوسرے دوست ممالک سے بھی وہ یہ توقع کریں گے کہ وہ خود اپنی سرحدوں کا خیال رکھیں۔ان کی تقریر میں ساری توجہ امریکہ کے مفاد پر مرکوز تھیں۔ انھوں نے وہی باتیں دہرائیں جو وہ انتخابی مہم کے دوران کہتے رہے ہیں۔ وہ ایک ایسی پالیسی میں یقین رکھتے ہیں جس میں کوئی دوسرا ملک تبھی ان کے لیے اہم ہوگا جب اس کے تعلقات سے امریکہ کو براہ راست کوئی فائدہ ہو۔ اس نئی پالیسی سے دنیا کے بہت سے خطوں بالخصوص مشرقِ وسطیٰ اور یورپی اتحادیوں میں خاصی بے چینی ہے۔ ڈونالڈٹرمپ کے صدر بننے پر اسرائیل کی سخت گیر جماعتیں اور رہنما کافی خوش ہیں۔ ٹرمپ کے اس بیان سے اسرائیل کی امیدیں اور بھی بڑھ گئی ہیں کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کر سکتے ہیں۔ انھیں اسرائیل کا ایک قریبی دوست تصور کیا جاتا ہے۔اسرائیل کے وزیر تعلیم نے ٹرمپ کی کامیابی پر کہا تھا کہ ان کے آنے سے ایک فلسطینی مملکت کے قیام کے لئے بین الاقوامی برادی کا سیاسی عزم ختم ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کی جیت نے اسرائیل کو ایک بہترین موقع فراہم کردیا ہے کہ وہ ‘دو مملکت‘ کے تصورسے فوراً منحرف ہو جائے۔ بقول ان کے فلسطینی مملکت کے قیام کے تصور کا دور اب ختم ہو گیا۔
سابق صدربارک اوباما کی مشرقِ وسطیٰ اور خلیج ممالک میں واحد کامیابی یہ رہی کہ انھوں نے ہر قسم کے دباؤ اور حالات کے باوجود ایران میں وہ صورت حال نہیں پیدا کی جو انھوں نے شام اور لیبیا میں کی۔ ان کے آٹھ سالہ دورِ حکومت میں سب سے بڑی ناکامی فلسطین- اسرائیل تنازعہ رہی۔ بارک اوباما کی حکومت میں امریکی انتظامیہ کوئی جامع مذاکرات تک شروع کرانے کی متحمل نہ ہو سکی۔ صدر ٹرمپ بنیادی طور پر ایک بزنس میں ہیں۔ کسی بھی پہلو کا جائزہ وہ نفع اور نقصان یا نتیجے کے نقطہ نظر سے کرتے ہیں۔ اگر انھیں روس سے کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں ہو گا تو وہ روس سے بھی اچھے تعلقات رکھنا چاہیں گے اور اس میں انھیں کوئی نظریاتی مسئلہ نہیں ہے۔اگر وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ گذشتہ دہائیوں کی بات چیت سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان دو مملکت کے سوال پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے تو وہ ایک مملکت کے تصور کی حمایت کر سکتے ہیں۔ اگر انھوں نے امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا تو یہ ایک مملکت کے قیام کی حقیقت کی طرف پہلا قدم ہو گا۔ ان کے اس فیصلے سے بین الاقوامی برادری کا عزم ٹوٹے گا یا نہیں اس کے بارے میں فوری طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔امریکہ اب عراق شام، لیبیا اور یمن کے تنازعات سے فوری طور پر الگ ہونا چاہے گا۔ ابھی یہ واضحنہیںہواکہ سعودی عرب، کویت اور خطے کے دوسرے اتحادیوں سے نئی انتظامیہ کے تعلقات کس طرح کے ہوں گے؟ لیکن ٹرمپ کے آنے سے خطے کے حکمرانوں میں زبردست بے چینی ہے۔ یہ پورا خطہ اندرونی بے چینیوں کے ایک بند آتش فشاں پر بیٹھا ہوا ہے۔ اس خطے میں امریکہ کی عدم دلچسپی پورے خطے میں عدم استحکام کا موجب ہو سکتی ہے۔آنے والے دنوں کی ممکنہ صورت حال کے پیش نظر ہی فرانس نے گذشتہ ہفتے فلسطین اور اسرائیل کے سوال پر 70 ملکوں کی کانفرنس بلائی تھی۔ پیرس کانفرنس نے امریکہ اور اسرائیل سے اپیل کی ہے کہ وہ یکطرفہ طور پر کوئی قدم نہ اٹھائیں۔ بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ مذاکرات میں تین دہائیاں ضائع کی گئیں۔