ہندوستان میں پچھلے دنوں ایک آٹھ سالہ لڑکی کی عصمت دری اور قتل کے واقعہ کو لے کر زبر دست احتجاج بلند کیا گیاتھا ۔لاکھوں کی تعداد میں لوگ انصاف کے لئے سڑکو ں پر نکل آئے تھے ۔ہر انسان کے چہرے پر غم و غصہ دکھائی دے رہا تھا ۔
ہر کوئی مجرموں کو پھانسی کے تخت پر لٹکانے کا مطالبہ کر رہا تھا ۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے گھناؤنی حرکت کرنے والوں کوپھانسی کی سزا دینے سے کیا اس قسم کے واقعات میں کمی آئے گی ؟حالات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ اس کا گہرا اثر حکومت پر پڑنے لگا ۔
اور کرناٹک ریاست میں انتخابات کے پیش نظر حکومت ایک بل پاس کرتی ہے جس کے تحت ۱۲؍ سال سے کم عمر لڑکی کے ساتھ اگر عصمت ریزی کی جائے گی تو مجرم کو پھانسی کی سزا دی جائیگی ۔اسی دوران دہلی ہائی کورٹ نے سوال کیا ہے کہ کیا کوئی عصمت ریزیوں کے واقعات کو روکنے کے لئے موت سزارکاوٹ کرپائی ہے ؟ یہاں پر نکتہ یہ ہے کہ عصمت دری کسی ۱۲؍ سال کی کم عمر لڑکی کا جنسی استحصال کرنے کے بعد اسے زندہ نہیں چھوڑے گا ۔کیوں کہ اس واقعہ کی اہم گواہ وہی رہیگی اور عدالت میں گوا ہ دے دیگی ۔
اسلئے عصمت دری کرنے والا اس کی عزت سے کھیل کر اسے وہیں قتل کردے گا ۔این سی آر بی ڈاٹا کے مطابق ۳.۹۹ ؍ فیصد عصمت کرنے والے لڑکی کے قریبی رشتہ دار ہی ہوتے ہیں یا لڑکی کے جان پہچان والے ہی ہوتے ہیں ۔اگر حکومت کے بنائے گئے نئے قانون کے مطابق عصمت ریزی کرنے والے کو سزائے موت ہے ۔تو کون سے ایسے لوگ ہیں کو اپنے ہی خاندان والوں کو موت کی سزا دلوائیں ۔