کیا آپ کے کھاتہ داری کے بینکس محفوظ ہیں؟

بینک دیوالیہ پر آپ کی جمع پونجی نہیں ملے گی ، ایف آر ڈی آئی بل سے خوف کے سائے
حیدرآباد /7 ڈسمبر ( سیاست نیوز ) انسان اپنی پونجی جمع کردہ رقم بچوں کے مستقبل ، تعلیم شادی بیاہ اور اپنے بڑھاپے کیلئے جمع کرتا ہے اور اس رقم کو محفوظ رکھنے کیلئے وہ خود سے زیادہ بینکوں پر اعتماد کرتا ہے لیکن اس بات سے ملک کے ان تمام شہریوں کو شدید جھٹکا لگے گا کہ اب ان کی رقم بنکوں میں بھی محفوظ نہیں رہے گی ؟ یا پھر وہ بنک ہی محفوظ نہیں جو انکی زندگی بھر کے سرمایہ اور اثاثہ کو جمع کرتے ہیں؟ ہاں ایسا ہی کچھ ہونے جارہا ہے ۔ ملک میں مرکزی حکومت اس طرح کا ایک قانون تیار کرنے جارہا ہے ۔ جس کے متعلق کئی خدشات ہی نہیں بلکہ یقینی طور پر خطرہ پایا جاتا ہے ۔ اس بل کی قانونی شکل کے بعد ڈپازیٹرس کی رقم پر ان کا کوئی اختیار نہیں رہے گا ۔ اس بل کے چند خدوخال منظر پر آچکے ہیں جو معاشی ماہرین کیلئے بھی تشویش کا سبب بنے ہوئے ہیں ۔ حالانکہ حکومت اس بل سے متعلق شہریوں میں اعتماد بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور رقم کے متعلق اطمینان کا اشارہ دے رہی ہے ۔ لیکن بل میں پیش کردہ اور موجودہ شرائط اس اطمینان کے برخلاف دکھائی دے رہے ہیں ۔ آخر اس بل میں کیا ہے ؟۔ جس سے ڈپازیٹرز کو شدید نقصان ہوگا ۔ بلکہ رقم ہی ختم ہوجائے گی شاید شہری اس بل کو قانونی شکل کے بعد اپنی رقم بنکوں میں جمع ہی نہ کریں ۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے بعد عام عوام کو متاثر کرنے والا سب سے زیادہ اثر انداز بل تصور کیا جارہا ہے ۔ اس بل کے مطابق دیوالیہ نکلنے والے بنک آزاد ہوجائیں گے ۔ یعنی عوام کی جمع شدہ رقم بھی بینک دیوالیہ کے ساتھ ختم ہوجائے گی اور کوئی گیارنٹی نہیں رہے گی ۔ مرکزی حکومت 1961 کے نہرو دور حکومت کے کارپوریشن کو ختم کرتے ہوئے نیا قانون تیار کر رہی ہے ۔ نہرو حکومت نے اس وقت دو بنکوں کے دیوالیہ کے بعد ڈپازٹ انشورنس اینڈ کریڈیٹ گیارنٹی کارپوریشن کو قائم کیا تھا جس کے تحت ڈپازیٹرز کو بنک دیوالیہ پر کچھ حد تک راحت فراہم کرنے کے اقدامات کئے گئے اور تاحال یہ کارپوریشن جاری تھا جس کو اب برخواست کرتے ہوئے اس کی جگہ فینانشیل ریزرویشن اینڈ ڈپازٹ انشورنس FRDI کو قائم کیا جارہا ہے ۔ جس کے تحت اس ادارے کو بہت زیادہ اختیارات آگئے ہیں جو تشویشناک بتائے جارہے ہیں ۔ جس کے تحت بنک میں رقم ڈپازٹ کرنے کے بعد ڈپازیٹر کو اس کی رقم پر کوئی اختیار نہیں رہے گا بلکہ بنک اس رقم کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرسکتا ہے ۔ اور قرض کی ادائیگی کیلئے یہ رقم استعمال میں لاسکتا ہے ۔ اس بل میں ایک اور خوفناک بات یہ ہے کہ اگر فرض کیجئے کوئی شہری اپنی لڑکی کی شادی یا ان کی تعلیم کیلئے 5 سال کی مدت کیلئے رقم کو ڈپازٹ کرتا ہے تو بنک کو یہ اختیار رہے گا کہ وہ ڈپازیٹر کی اجازت کے بغیر اس مدت کو 20 سال تک بڑھا دے ۔ یعنی ضرورت کے وقت رقم کا حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہوجائے گا اور مزید کہ بنک ڈپازیٹر سے کئے گئے کسی بھی وعدہ کو پورا کرنے یا نہ کرنے کا مکمل اختیار رکھتا ہے اس کے علاوہ اگر کسی ڈپازیٹر کے سیونگ اکاونٹ میں 15 لاکھ روپئے جمع ہیں تو بنک اپنی مرضی سے اس کو ایک لاکھ روپئے میں بدل سکتا ہے یا پھر 15 لاکھ روپئے کی رقم مکمل طور پر فکسڈ ڈپازٹ میں بدل سکتا ہے ۔ جس کیلئے بھی بنک کو ڈپازیٹر کی اجازت نہیں ہوگی ۔ حکومت ، بنک جو دیوالیہ نکالنے کے قریب یا پھر دیوالیہ نکال چکے ہوں انہیں بچانے کیلئے اس طرح کے اقدامات کر رہی ہے ۔ جو شدید تنقید اور عوامی برہمی کا سبب بنے ہوئے ہیں ۔ تاہم حکومت نے اس میں ترمیم کا وعدہ کیا ہے لیکن تاحال کوئی اقدامات نہیں کئے گئے ۔ صرف اطمینان کی بات کی جارہی ہے ۔ مجوزہ ایف ڈی آر آئی بل کے متعلق سوشیل میڈیا پر زبردست ہنگامہ مچا ہوا ہے اور شہریوں کو اپنی محنت کی کمائی رقم کی حفاظت کی فکر لگی ہوئی ہے ۔ پہلے بنکوں کے دیوالیہ ہونے پر ’’ بیل آوٹ ‘‘ سسٹم کے ذریعہ ڈپازیٹرز کو حکومت کی جانب سے مدد فراہم کی جاتی تھی لیکن اب اس نئے مجوزہ سسٹم ’’ بیل ان ‘‘ کے ذریعہ دیوالیہ پن کا شکار بنک کو ایف ڈی آر آئی اپنے اختیار میں لیتے ہوئے اس کی مدد کرسکتا ہے اور بنک کے قرض اور خسارہ کے متعلق پالیسی تیار کرتے ہوئے اس کا سہارہ بن سکتا ہے ۔ جبکہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اس ادارے کی جانب سے ڈپازیٹرز کی کوئی مدد نہیں کیک جائے گی ۔ اس سارے معاملہ کے بعد مرکزی وزیر فینانس نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے عوام کو اطمینان دلانے کی کوشش کی اور کہا کہ اسٹانڈنگ کمیٹی کے زیر غور ہے اور عوام کو راحت فراہم کرنے کے اقدامات کئے جائیں گے ۔ اس دوران فینانس سکریٹری مسٹر گارک نے بھی اپنی وضاحت میں عوام کو راحت فراہم کرنے کا یقین دلایا اور بتایا کہ ڈپازیٹرز کو راحت فراہم کرنے کے شرائط عائد کئے جائیں گے ۔ تاہم عوام کو اب اس بات کا خوف پیدا ہوگیا ہے کہ سرمایہ زندگی بھر کی رقم کی حفاظت پر کوئی بھروسہ نہیں رہا ۔