کھانے کے اوقات میں تبدیلی کے جگر پر اثرات

صرف کھانے کے اوقات میں تبدیلی کا جگر میں ٹرائی گلیسرائیڈس کی سطحوں پر نمایاں اثر مرتب ہوتا ہے ۔ اس انکشاف کے نشوونما کے امراض کے علاج پر اہم اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مقررہ اوقات کی پابندی پر کئی حیاتیاتی عوامل منحصر ہوتے ہیں۔ سرگرمی کی سطحوں میں اضافہ اور دن کے بعض اوقات میں ان میں کمی ہوتی ہے ۔ ایسے تغیرات کو سرکیڈف ردمس کہا جاتا ہے یہ داخلی ’’جسمانی گھڑی ‘‘ پر منحصر ہوتے ہیں اور تقریباً 24گھنٹے مدت کے ہوتے ہیں ۔ ہلکے ، گہرے ادوار سے ہم آہنگ ہوتے ہیں ۔ اور جسمانی نظام کے ماحول کے دیگر اشاروں پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس مثبت رجحان کے اوقات کے نظام میں خلل اندازی جانوروں اور انسانوں دونوں میں عدم توازن پیدا کرسکتی ہے ۔

اس کے نتیجہ میں امراض جیسے مٹاپا ، نشوونما کا مرض اور جگر کا موٹا ہوجانا لاحق ہوتے ہیں ۔ سرکیڈمین روم کے چوہوں کے جگر میں لیڈس کے ارتکاز میں کردار کا مطالعہ کرنے کے دوران ویزمین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کے یارٹ آڈ مووچ اور ان کے ساتھیوں نے چوہوں کے جگر میں پائے جانے والے سینکڑوں مختلف لیڈس کی مقداروں کی پیمائش کی ۔ انھوں نے لیڈس کے ایک خاص گروپ کا پتہ چلایا جس کا نام ٹرائی گلیسرائیڈس ہے اور جو سرکاڈین رویہ کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ طلوع آفتاب کے 8 گھنٹے بعد ان کی سطحوں میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔

سائنس داں یہ دریافت کرکے حیران ہوگئے کہ لیڈس کے اس گروپ میں روزانہ تغیرات ان چوہوں میں بھی مستقل تھے جن میں کارکرد حیاتیاتی گھڑی موجود نہیں تھی ۔ البتہ ان کا عروج مختلف وقت ہوتا تھا یعنی قدرتی پروگرام سے 12 گھنٹے بعد ۔

یہ نتائج مکمل طورپر حیرت انگیز تھے کیونکہ ہر ایک کو یہ توقع تھی کہ اگر پوشیدہ گھڑی کا نظام ’’مردہ‘‘ ہو تو ٹی اے جی کا ارتکاز وقت پر منحصر انداز میں نہیں ہوا ۔ ایڈمووچ نے کہاکہ ایک بات جو ذہن میں آئی یہ تھی کہ چونکہ غذا لیڈس کا بڑا ذریعہ ہے خاص طورپر ٹی اے جی کا ۔ اس لئے ان چوہوں کی کھانے کی عادات ممکن ہے کہ کردار ادا کرتی ہوں ۔ عام طورپر چوہے اپنی غذا کا 20فیصد دن میں اور 80 فیصد رات میں استعمال کرتے ہیں۔ تاہم چوہوں میں کارآمد گھڑی موجود نہیں ہوتی ۔ محققین نے نوٹ کیاکہ وہ دن بھر غذا استعمال کرتے رہتے ہیں۔ اس مشاہدہ سے یہ امکان خارج ہے کہ غذا ٹی اے جی کی سطحوں میں نظر آنے والے تغیرات کے نمونوں کی ذمہ دار ہے ، جو ان چوہوں میں دیکھے گئے ۔