سپریم کورٹ بنچ کا بیان
نئی دہلی ، 26 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے آج کہا کہ اس کی ’’حقیقی فکرمندی‘‘ یہ یقینی بنانا ہے کہ کٹھوعہ کیس میں منصفانہ ٹرائل منعقد کیا جائے جبکہ بار کونسل آف انڈیا نے کہا کہ وہاں ضلع میں وکلاء کے ادارہ نے نہ تو کرائم برانچ کو چارج شیٹ داخل کرنے میں رکاوٹ پیدا کی اور نا ہی متاثرہ کی فیملی کی پیروی کرنے سے کسی کو روکا ہے۔ چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ اگر اسے منصفانہ سماعت کا معمولی سا اندیشہ بھی ہوجائے تو وہ اس کیس کو کٹھوعہ کے باہر منتقل کردے گی۔ اس بنچ میں جسٹس اے ایم کھانویلکر اور جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ بھی شامل ہیں۔ بنچ نے کہا کہ ٹرائل نہ صرف ملزمین کیلئے بلکہ مظلوم کی فیملی کیلئے بھی منصفانہ ہونا چاہئے اور انھیں اور ان کے وکلاء کیلئے حفاظت و سلامتی کو یقینی بنانا چاہئے۔ بنچ نے اس کیس میں متعلقہ نظم و نسق سے وابستہ وکلاء کی جانب سے مبینہ رکاوٹ پیدا کئے جانے کے مسئلے پر بھی غور کیا اور کہا، ’’اگر وکلاء غلطی پر ہیں تو اُن سے قانون کی مطابقت میں نمٹا جائے گا‘‘۔ سنوائی کے دوران فاضل عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں اصل مسئلہ یہ کیس میں فیئر ٹرائل کو یقینی بنانا ہے۔ اس معاملے پر اگلی سماعت 30 جولائی کو ہوگی۔ شروعات میں ہی بار کونسل آف انڈیا (بی سی آئی) نے سربمہر لفافہ میں اپنی انکوائری رپورٹ داخل کی، جو کٹھوعہ میں اس کیس میں وکلاء کی جانب سے مبینہ رکاوٹ سے متعلق ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ جے اینڈ کے ہائی کورٹ بار اسوسی ایشن، جموں اینڈ کٹھوعہ ڈسٹرکٹ بار اسوسی ایشن کا اس معاملے میں سی بی آئی تحقیقات کیلئے مطالبہ حق بجانب معلوم ہوتا ہے۔ دریں اثناء ایڈوکیٹ شعیب عالم نے ریاست کی پیروی کرتے ہوئے بی سی آئی کی رپورٹ کی مخالفت کی اور دوہرایا کہ پولیس ٹیم کو مبینہ طور پر وکلاء نے ڈھکیلا جس کے سبب وہ ٹرائل کورٹ میں چارج شیٹ داخل نہ کرسکے۔ انھوں نے ہائیکورٹ کی رپورٹ کی نشاندہی کرتے ہوئے کٹھوعہ کے ایک ڈسٹرکٹ جج کی علحدہ رپورٹ پر توجہ مبذول کرائی اور دعویٰ کیا کہ یہ رپورٹ آفیسرز اور جسٹس اڈمنسٹریشن سسٹم کی طرف سے ’’رکاوٹ‘‘ کا سخت انکشاف کیا ہے۔ سینئر ایڈوکیٹ اندر جئے سنگ نے مظلومہ کے والد کی پیروی کرتے ہوئے بنچ کو بتایا کہ یہ کیس اور اس کے ٹرائل پر فاضل عدالت کی نگرانی رہنا چاہئے۔ جموں میں کٹھوعہ کے قریب گاؤں سے 10 جنوری کو اقلیتی بنجارہ کمیونٹی کی 8 سالہ لڑکی لاپتہ ہوئی تھی۔ اس کی نعش ایک ہفتے بعد اُسی علاقہ میں پائی گئی۔