گاؤں واپسی سے خوفزدہ ‘ ملزمین رہا ہوتے ہی ہمیں ماردیں گے ‘خاتون کا بیان
بانیہال۔6مئی ( سیاست ڈاٹ کام ) بانیہال میں نیلے رنگ کے خیمہ میں لیٹی فاطمہ ( تبدیل شدہ نام) آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اکثر سوچتی ہے کہ چھ مہینے کے بعد کیا وہ اپنے گاؤں راسنا لوٹ پائے گی ۔ کٹھوعہ ضلع کا وہی گاؤں جہاں اس کی 8سالہ بیٹی کو یرغمال بناکر کئی دنوں تک اس کی آبروریزی کی گئی اور پھر اس کا قتل کردیا گیا ۔ بچی کی آبروریزی کے بعد جو کچھ بھی ہوا ‘ فاطمہ اس سے خود کو دھوکہ کھائی ہوئی محسوس کرتی ہیں ‘ اسے لگتا ہے کہ جذباتی طور سے وہ ٹوٹ گئی ہے اور برسوں تک اس کے پڑوسی رہے لوگوں نے اس کو دھوکہ دیاہے ۔ سپریم کورٹ میں پیر کو کٹھوعہ آبروریزی اور قتل کیس کی سماعت ہوگی ۔ اس معاملہ میں متاثرہ اور ملزم دونوں ہی فریق کی طرف سے عرضی داخل کی گئی ہے ۔فاطمہ چاہتی ہے کہ معاملہ کی سماعت فاسٹ ٹریک کورٹ میں ہو اور ملزموں کو پھانسی کی سزا ملے ۔ دوسری طرف ملزموں کا کنبہ چاہتا ہے کہ اس معاملہ میں سی بی آئی از سرنو جانچ کرے ۔ ملزموں کے اہل خانہ کو جموں کے کئی وکیلوں ‘ لیڈروں ‘ سماجی تنظیموں کی حمایت بھی مل رہی ہے ۔ فاطمہ کا کنبہ اور ان کے بکروال برادری کے کئی لوگ گذشتہ ماہ راسنا چھوڑ کر وادیوں کی طرف چلے گئے ۔اس برادری کے لوگ چھ مہینے کیلئے اپنی بھیڑوں اور بکریوں کو لیکر وادیوں کی طرف چلے جاتے ہیں اور سردیاں شروع ہوتے ہی اپنے گاؤں واپس لوٹ آتے ہیں ۔ چھ ماہ باہر رہنے کے دوران وہ پیرپنجال علاقہ کے کئی مقامات پر جاتے ہیں ۔ تاہم ان کا پہلا ٹھکانہ بانیہال ہے جو جموں اور کشمیر کو جڑنے والی ٹنل سے تقریباً 2.5 کلومیٹر دور ہے ۔ فاطمہ روتے ہوئے کہتی ہے کہ راسنا میں جہنم جیسی زندگی ہوگئی تھی ‘ میری بچی کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے گھومتا رہتا ہے میں اس سے پریشان ہوجاتی تھی ‘ اس لئے ہم نے وقت سے پہلے ہی گاؤں چھوڑنے کا فیصلہ کیا ۔فاطمہ کو روتا ہوا دیکھ کر کچھ خواتین وہاں جمع ہوگئی ۔ وہ چیختے ہوئے کہتی ہیں کہ میری بیٹی کے ساتھ اتنا گندہ کام کرنے والے سی بی آئی کی جانچ کا مطالبہ کررہے ہیں۔