کوے کی ’’ کائیں کائیں ‘‘چالاک چوہا بھاگ نکلا…

ایک کوا بہت بھوکا تھا ، وہ صبح سے شام تک ادھر اُدھر اُڑتا رہا اسے کھانے کیلئے کچھ نہ ملا۔ وہ مایوس ہوچکا تھا۔ تھک ہار کر وہ ایک درخت پر جا بیٹھا اور اُداسی سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا ، اچانک اس کی نظر چوہے پر پڑی جو درخت کے پاس بیٹھا کچھ کھارہا تھا۔ کوے نے جھپٹ کر اسے منہ میں دبالیا اور اوپر اُڑ گیا۔
چوہے کو بہت ڈر لگ رہا تھا، اگر وہ گر گیا تو مرجائے گا اور اگر اس کوے سے خود کو نہیں چھڑایا تو کوا اُسے کھاجائے گا۔ چوہے نے بہت سوچا، آخر اس نے کوے کے کان میں کہا ’’ بھائی کوے ، تم مجھے ضرور کھاؤ، مگر ایک بات ہے، تم سارے پرندوں میں سب سے اچھے ہو، میں تمہیں بہت پسند کرتا ہوں۔ تمہاری کائیں کائیں مجھے بہت اچھی لگتی ہے۔ اس میں مٹھاس ہے ۔ جیسے سارنگی سے سُر نکال رہے ہو۔ مرنے سے پہلے میں تمہاری’’ کائیں کائیں‘‘ سننا چاہتاہوں۔‘‘ کوا، اپنی جھوٹی تعریف سن کر بہت خوش ہوا اور اپنی شیخی دکھانے کیلئے وہ ایک درخت پر جا بیٹھا اور چوہے کو چونچ سے نکال کر درخت کی ٹہنی پر چھوڑا، اور اپنے پر پھیلا کر خود زور زور سے کائیں، کائیں ، کائیں کرنے لگا۔ اس کی کائیں کائیں سن کر دوسرے کوے گھبرا کر اُڑتے چلے آئے، شاید کوئی مشکل آن پڑی ہے۔ پوچھنے لگے ’’ کیا ہوا ، کیوں چیخ رہے ہو‘‘ وہ ہنسا اور کہا ’’ارے کچھ نہیں دوستو، میاں چوہے کو میری کائیں کائیں بہت پسند ہے۔ میں اسے کھانا چاہتا ہوں۔ لیکن وہ مرنے سے پہلے میری آواز سننا چاہتا ہے۔‘‘ کوؤں نے حیران ہوکر اِرد گرد دیکھا ’’ بھائی کونسا چوہا اور کہاں ہے چوہا ‘‘ ۔ کوے نے اِدھر اُدھر دیکھاتو چالاک چوہا غائب تھا۔ سارے کوے چوہے کی چالاکی اور کوے کی بے وقوفی پر خوب ہنسے ، کوا شرمندہ ہوکر وہاں سے اُڑ گیا۔