حیدرآباد ۔ 28 ۔ جنوری : شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد میں 7 پہاڑیاں بہت زیادہ مشہور ہیں اور ہر پہاڑی کسی نہ کسی لحاظ سے اہمیت رکھتی ہے ۔ اس میں سے کچھ پہاڑیاں ایسی ہیں جو محبت و عقیدت کا مرکز بنی ہوئی ہیں اور صدیوں سے اس عقیدت و محبت کا سلسلہ جاری ہے ۔ ہمارے شہر سے 16 کیلو میٹر کے فاصلہ پر سطح سمندر سے 2017 فٹ کی بلندی پر ایک خوبصورت پہاڑی ہے اور اس پہاڑی کو داماد رسول ﷺ شیر خدا خلیفہ چہارم حضرت علیؓ سے موسوم کیا گیا جس کے بعد سے اس کی اہمیت میں اضافہ ہوگیا ۔ تاریخی کتب کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آصف جاہی دور میں اس کی تعمیر عمل میں لائی گئی لیکن کئی ایسی تاریخی کتب ہیں جس میں سلطان ابراہیم قطب شاہ کے دور میں وہاں کی گئیں تعمیرات کے حوالے دئیے گئے ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ ماضی میں اس مقام پر ایک چھوٹی سی آبادی ہوا کرتی تھی اور امراء و رئیسوں کے باغات ہوا کرتے تھے جب کہ سید علی کی باولی اپنی وسعت کے باعث دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی ۔ اس پہاڑ کی نصف بلندی پر جو کمان ہے اسے خوشحال خان کی کمان کہا جاتا ہے ۔ وہ مہ لقابائی کے استاذ تھے ۔ خوشحال خان نے وہاں ایک مسجد اور عاشور خانہ بھی تعمیر کروایا ۔ ایک تاریخی کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کوہ مولا علی پر ایک تاریخی فارسی کتبہ ہے
اس کا اردو ترجمہ اس طرح ہے ’ خوشحال خان اپنی خوش نصیبی سے کوہ شریف پر اپنی نیک نیت اور سچے دل سے کمان ، مسجد ، عاشور خانہ ، سرائے تکیہ فقیری خدا کے نام پر بنایا ۔ خوشحال خان کی کمان سے گذرنے کے بعد پہاڑ پر جنوب میں جو مسجد ہے وہ سلطان ابراہیم قطب شاہ کی تعمیر کردہ ہے ۔ کوہ مولا علی میں جو نقار خانہ ہے وہ مہاراجہ چندو لال کا تعمیر کردہ ہے اور بارہ دری راجہ راؤ رنبھا جیونت بہادر کی تیار کی ہوئی ہے ۔ پہاڑ پر جو زیارت گاہ ہے اس کے اندرونی حصہ پر آئنے کا کام نواب امداد جنگ بہادر اور نواب شاہ یار جنگ بہادر کا بنوایا ہوا ہے ۔ پہاڑ پر شمالی احاطہ میں پھیکی بی کا مزار ہے ۔ جو سید مظفر ازرندانی کی بیٹی تھیں یہ صاحب ابوالحسن تاناشاہ کے دور میں وزیر اعظم کے باوقار عہدہ پر فائز تھے ۔ قارئین ۔ کوہ مولا علی کے بارے میں ہم نے جو مذکورہ تفصیلات پیش کی ہیں اس کا مقصد دراصل یہ بتانا ہے کہ ہمارے شہر کی اس تاریخی زیارت گاہ چونکہ سطح زمین سے بہت بلندی پر واقع ہے اس لیے زائرین کو تقریبا 500 سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہے ایسے میں 11 جون 2013 کو مئیر عظیم تر مجلس بلدیہ حیدرآباد اور دیگر عوامی نمائندوں نے کوہ مولا علی کا دورہ کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ اندرون ماہ کوہ مولا علی کے لیے ریمپ کی تعمیر کا آغاز ہوگا ۔ اور اس پر 5 کروڑ روپئے کے مصارف آئیں گے ۔ مئیر اور دیگر نے اس وقت یہ بھی کہا تھا کہ ریمپ کی تعمیر و تنصیب کا کام دو مرحلوں میں کیا جائے گا ۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ 9 ماہ گذر جانے کے باوجود ریمپ کی تعمیر کا آغاز تو دور کی بات سنگ بنیاد کی تقریب تک منعقد نہیں ہوئی ۔
واضح رہے کہ بلا لحاظ مذہب و ملت یومیہ ہزاروں زائرین کوہ مولا علی آتے ہیں اور انہیں پانچ سو سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں ۔ خاص طور پر معذور اور ضعیف زائرین کو مشکلات پیش آتی ہیں اس کے باوجود ان کا جذبہ عقیدت قابل تعریف ہوتا ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ تاریخی درگاہ کوہ مولا علیؓ کے تحت 232 ایکڑ مشروط الخدمت موقوفہ اراضی ہے ۔ راقم الحروف نے سطور بالا میں جن مشہور و معروف پہاڑیوں کا تذکرہ کیاہے ۔ ان میں حضرت بابا شرف الدین کی پہاڑی ، کوہ طور (فلک نما کی پہاڑی ) ، حضرت میر محمود صاحب کی پہاڑی ، قلعہ گولکنڈہ کی پہاڑی ، جبل نور حکیم پیٹ کی پہاڑی ، نوبت پہاڑ بھی شامل ہیں ۔ 4 جون 2013 کو حضرت بابا شرف الدین کی پہاڑی پر بھی 4.5 کروڑ روپئے کی لاگت سے ریمپ ڈالنے کا اعلان کیا گیا لیکن اس اعلان پر اب تک کوئی عمل آوری نہیں کی گئی ۔ واضح رہے کہ درگاہ حضرت بابا شرف الدینؒ تک پہنچنے کے لیے زائرین کو 380 سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں ۔ بہرحال اب عوام کو وعدوں کی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔ اس لیے کہ عام آدمی اب بہت ہشیار ہوچکا ہے اسے دل کو بہلانے والے وعدے کرنے والوں کی اچھی طرح شناخت ہوچکی ہے ۔۔