کوکٹ پلی کی سڑکوں پر درجنوں مسائل ، عوام کو جسمانی اور ذہنی پریشانی

ایرا گڈہ تا کے پی ایچ بی کالونی کے راستے میں 24 گھنٹے ٹرافک جام ، فٹ پاتھ اور فٹ اوور برج نہ ہونے سے حادثات کا خدشہ
حیدرآباد ۔ 7 ۔ اگست : ( سیاست نیوز) : شہر حیدرآباد میں تاریخی علاقوں سے قطع نظر دیگر علاقوں میں کوکٹ پلی کو کئی اعتبار سے اہمیت حاصل ہے لیکن اس کے باوجود بلدی نظم و نسق کے حکام کوکٹ پلی کے مسائل کو حل کرنے میں مستعدی کا ثبوت نہیں دیتے اور آئے دن محلوں میں کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں جو کہ موسمی ہونے کے علاوہ مستقل نوعیت کے بھی ہوتے ہیں ۔ کوکٹ پلی میں ٹرافک جام کا مسئلہ ایک مستقل نوعیت کا مسئلہ ہے اور چند ٹرافک سگنلز کو کالعدم کرنے سے ٹرافک جام کا مسئلہ مزید سنگین نوعیت کا بن گیا ہے ۔ بہتر فٹ پاتھ نہ ہونے کی وجہ سے پیدل چلنے والے سڑکوں کے کنارے چلنے پر مجبور ہیں اور سڑک کی دونوں جانب دکانات اور شاپنگ مالس کی پارکنگ نے جہاں پیدل چلنے والوں کے لیے راستے کی رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں وہیں ٹرافک کے لیے راستے تنگ ہوچکے ہیں ۔ سڑکیں تنگ ہونے اور ٹرافک کے مسائل پیدا ہونے میں میٹرو ریل کے تعمیراتی ساز و سامان نے بھی مزید اضافہ کردیا ہے ۔ ٹرافک جام کے سنگین مسائل کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ صبح 10 بجے سے لے کر رات 10 بجے تک ایرا گڈہ سے کوکٹ پلی ہاوزنگ بورڈ کالونی میٹرو اسٹیشن تک ٹرافک جام رہتی ہے جب کہ 10 بجے رات کے بعد خانگی ٹراویلس کی بڑی بسیں اور ساز و سامان منتقل کرنے والی بڑی لاریوں سے مسائل میں اضافہ ہونے کے علاوہ چھوٹی گاڑیوں کے لیے ٹرافک جام کے علاوہ خطرات کی گھنٹی بھی بجنے لگتی ہے ۔ ڈاکٹر عتیق خان ( نام تبدیل ) جن کا چندا نگر میں دواخانہ ہے اور جو اپنے دواخانے کو کوکٹ پلی سے روزانہ جاتے ہیں ، انہوں نے کہا ہے کہ مصروف اوقات میں بڑی اور بھاری گاڑیوں سے ٹرافک کے مسائل سنگین ہوچکے ہیں اور ستم بالائے ستم کے مترادف ان راستوں پر ٹرافک سگنلز کی قلیل تعداد نے ٹرافک مسائل کو سنگین بنادیا ہے ۔ اور یہ روزانہ کا مسئلہ ہے ۔ ویویکانندا نگر کے مکین لیاقت علی نے کہا ہے کہ بالا نگر سے کوکٹ پلی تک نہ فٹ پاتھ کا کوئی موثر انتظام ہے اور نہ ہی کوئی فٹ اوور برج ہے جس سے پیدل چلنے والے ٹرافک جام سے نہ ہی آگے بڑھ پاتے ہیں اور نہ ہی سڑک عبور کرسکتے ہیں ۔ سڑک عبور کرنے کے لیے میٹرو اسٹیشن کے ٹرافک سگنل تک جانا پڑتا ہے اور سگنل کے سرخ ہونے اور ٹرافک کے رکنے تک انتظار بھی کرنا پڑتا ہے ۔۔