کوٹہ کیلئے تشدد

یہاں کوتاہی ذوقِ عمل ہے خود گرفتاری
جہاں بازو سمٹتے ہیں ، وہیں صیاد ہوتا ہے
کوٹہ کیلئے تشدد
آندھراپردیش کیلئے کاپو ایجی ٹیشن ایک سنگین سیاسی مستقبل کا پیش خیمہ معلوم ہوتا ہے۔ ہر طبقہ اپنے لئے تحفظات کا مطالبہ کرتا ہے تو یہ حکمرانوں کیلئے توجہ طلب ہے۔ کاکناڈا میں ضلع کلکٹر کے دفتر کے باہر کاپو طبقہ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کی خودکشی کے بعد تشدد بھڑک اٹھا۔ احتجاجیوں نے ٹرین کے کوچس کو آگ لگادی۔ اس شخص کی خودکشی سے یہ پیغام دیا گیا کہ کاپو طبقہ کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ اس شخص نے اپنی خودکشی نوٹ میں فلم اداکار پون کلیان سے امید ظاہر کی کہ وہ اس طبقہ کیلئے کچھ بھلائی کے کام کریں گے۔ پون کلیان کاپو طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے بھائی تلگو اداکار چرنجیوی بھی کاپو ہیں۔ یہ طبقہ خوشحال طبقہ مانا جاتا ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہیکہ پون کلیان نے ابتداء میں تلگودیشم کا ساتھ دیا تھا۔ 2014ء کے انتخابات میں انہوں نے پارٹی کیلئے مہم بھی چلائی تھی لیکن اب وہ آندھراپردیش میں اپنے طبقہ کے ذریعہ سیاسی وزن بڑھانا چاہتے ہیں۔ اگرچیکہ انہوں نے کاپو طبقہ کے دوران تشدد کرنے اور ٹرین کو آگ لگانے والوں کو غیرسماجی عناصر قرار دے کر انہیں کاپو طبقہ کے پرامن احتجاج میں شامل ہوکر ہنگامہ کرنے کا الزام عائد کیا اور دوسری جانب انہوں نے احتجاج کرنے والے کاپو طبقہ کے ارکان کو مشورہ بھی دیا کہ وہ اپنے لئے کوٹہ کے حصول تک احتجاج ترک نہ کریں۔ سابق مرکزی وزیر اور راجیہ سبھا میں کانگریس رکن میگا اسٹار چرنجیوی نے بھی اس کاپو احتجاج کے ذریعہ اپنے سیاسی مقاصد کو بروئے کار لانے  چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو کو مکتوب لکھا اور احتجاجی ارکان کے ساتھ سختی سے برتاؤ کرنے پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے تشدد بھڑکانے کے لئے آندھراپردیش کی اپوزیشن پارٹیوں کو موردالزام ٹھہرانے پر تنقید کی۔ یہ کوٹہ نظام اب مختلف طبقات کیلئے پسندیدہ موضوع بن رہا ہے۔ جو طبقات حقیقی طور پر کوٹہ یا تحفظات کے مستحق ہیں ان کے لئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ راجستھان میں گجر طبقہ اور گجرات میں پٹیل برادری کے احتجاج کے بعد کاپو نے بھی تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اپنے لئے کوٹہ کا مطالبہ کیا ہے تو حکومت نے اس احتجاجی مرحلہ سے چھٹکارا پانے کیلئے قابل غور اقدام کرنے کا تیقن دیا۔ حکومتوں نے جن طبقات کو کوٹہ دینے کا وعدہ نہیں کیا وہ لوگ اپنے حق کیلئے یا پھر احتجاج کے ذریعہ حکمرانوں کی نیند حرام کررہے ہیں۔ تلنگانہ میں حکمراں پارٹی ٹی آر ایس اور اس کے سربراہ کے چندرشیکھر راؤ نے مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دینے کا انتخابی وعدہ کیا تھا اور اقتدار حاصل ہونے کے بعد اپنے وعدہ کو پس پشت ڈال دیا۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد نے حقوق کے حصول کیلئے پرامن احتجاج شروع کیا۔ تلنگانہ کے ہر ضلع اور منڈل میں پرامن طریقہ سے مسلمانوں نے کوٹہ کا وعدہ پورا کرنے کیلئے حکومت کو توجہ دلانے ریالیاں نکالی، یادداشتیں پیش کیں مگر حکومت اس پرامن اور اخلاقی مظاہرہ کو خاطر میں نہیں لارہی ہے۔ سیاستدانوں کی اکثریت ملک کے باشندوں کے ساتھ کوٹہ کی لالچ کے ذریعہ سیاسی کھیل کھیلے گی تو حالات ایک دن دھماکو ثابت ہوسکتے ہیں۔ ملک میں گذشتہ چند برسوں سے کوٹہ کی سیاست نے مختلف واقعات کو جنم دیا ہے۔ موقع پرستی کیلئے مشہور سیاستدانوں نے راجستھان میں دو مرتبہ احتجاجی مظاہرے کئے تھے۔ کاپو طبقہ کا کوٹہ کیلئے احتجاج دراصل جاٹس کے احتجاج سے حوصلہ پاکر کیا جارہا ہے کیونکہ اٹل بہاری واجپائی حکومت نے راجستھان کے گجر طبقہ اور گجرات میں پٹے دار طبقہ کو او بی سی موقف دیا تھا اب یہی طرز احتجاج آندھراپردیش میں شروع کیا گیا ہے۔ جہاں تک تلنگانہ میں ٹی آر ایس حکومت کے وعدہ کے مطابق مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دینے کا سوال ہے یہاں مسلمانوں نے اب تک پرامن طریقہ سے اپنے حصول حق اور حکومت کے وعدہ پر عمل آوری کیلئے زور دیتے ہوئے احتجاج کیا ہے۔ اگر تلنگانہ حکومت کوٹہ کے مسئلہ پر مسلمانوں کے اس پرامن احتجاج کو نظرانداز کرتی ہے اور اپنے وعدہ کو محض سیاسی فریب کی حد تک رکھتی ہے تو پھر آنے والے برسوں میں تلنگانہ کے مسلمان بھی حصول کوٹہ کیلئے اپنے احتجاج میں شدت لاسکتے ہیں۔ لہٰذا حکومت تلنگانہ کو اپنے وعدہ کی تکمیل میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ سیاسی سطح پر جب ڈرامائی حالات پیدا کردیئے جاتے ہیں تو عوامی سطح پر اس کے اثرات برعکس ہوتے ہیں۔ کاپو طبقہ ساحلی آندھرا کا ایک بااثر اور غلبہ رکھنے والا طبقہ ہے اس طبقہ کو 2002ء میں ایک تجزیاتی رپورٹ میں عثمانیہ یونیورسٹی پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر نے خوشحال طبقہ قرار دیا تھا جب خوشحالی کی دہلیز عبور کرکے کاپو طبقہ احتجاج کے ذریعہ اپنے لئے کوٹہ محفوظ کرانا چاہتا ہے تو مسلمانوں کو جو کوٹہ کے مستحق بھی ہیں اور حکومت کے وعدہ کی تکمیل کے منتظر بھی ہیں کاپو طبقہ کے احتجاج سے حوصلہ حاصل کرتے ہوئے اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کو قطعیت دینی ہوگی۔