کوفی عنان کا دورۂ میانمار

وہ دوست میرے تھے جب تک نہ کام آئے میرے
رہ حیات میں دشمن ہی راس آئے مجھے
کوفی عنان کا دورۂ میانمار
مسلمانوں کے ساتھ ساری دنیا میں نفرت کا رویہ رکھنے والی طاقتوں میں میانمار کے مخالف مسلم گروپ نے انتہائی ظالمانہ رویہ کی کارروائیاں جاری رکھی ہیں۔ روہنگیا کے مسلمانوں کی حالت ِ زار پر عالمی انسانی حقوق تنظیموں نے افسوس کا اظہار تو کیا ہے مگر اس ظلم و زیادتی کو روکنے کیلئے ٹھوس قدم نہیں اُٹھائے ۔ اقوام متحدہ کے سابق سربراہ کوفی عنان کی زیرقیادت ایک ٹیم نے برما کی راکھین ریاست کا دورہ کرکے فوجی کارروائیوں کے ذریعہ مسلمانوں کی زندگیاں، املاک اور ان کے مستقبل کو تباہ کرنے والے سلسلہ وار واقعات کا جائزہ لیا ہے۔ میانمار کی فوج اپنی بربریت کے ذریعہ ساری دنیا کے انسان دوست عوام کو مضطرب کر رکھا ہے۔ میانمار کی لیڈر آنگ سان سوچی نے شورش زدہ ریاست کو تشدد سے روکنے کے لئے موجودہ لڑائی بھڑکنے سے قبل 9 رکنی کمیشن تشکیل دیا تھا۔ اس ملک میں 2012ء کے فسادات میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ راکھین بودھ اور روہنگیا مسلم ایک سرزمین پر علیحدہ رہتے ہیں۔ یہاں بدھ مت کے ماننے والوں نے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ اس ملک کی تبدیل شدہ قیادت نے بھی روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کے لئے مضبوط کارروائی کرنے اپنے اختیارات کو بروئے کار نہیں لایا۔ نوبل انعام یافتہ امن پسند لیڈر جب انسانی حقوق کے تحفظ میں ناکام ہوتے ہیں تو صورتِ حال کی سنگینی کا اندازہ کرلیا جانا چاہئے۔ روہنگیا اقلیت کی مدد کرنے کے دعویٰ کرنے کے درمیان اگر مسلمانوں کی حالت دن بہ دن خطرناک اور ابتر ہوئی ہے تو اس پر عالمی طاقتوں کو فوری حرکت میں آنے کی ضرورت ہے۔ ان مسلمانوں کو شہریت کی بنیادی خدمات تک رسائی حاصل کرنے سے محروم رکھا گیا ہے۔ نسل کشی کی بدترین کارروائیوں کو روکنے کے لئے ایک عالمی اصول ہونے کے باوجود اس پر عمل آوری میں کوتاہی یا ناکامی کے بھیانک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ میانمار کے اندر جاری تشدد کے واقعات کو فوری روکنا ضروری ہے۔ جنوب مشرقی ایشیائی خطہ میں سلامتی و استحکام کو واپس لانے کیلئے اصول و ضوابط پر سختی سے عمل کیا جانے پر زور دیا جارہا ہے، مگر یہ زور بھی ایک ناکام دباؤ ثابت ہوا۔ شمالی راکھین میں تشدد سے نمٹنے میں ناکام قیادت کو اپنی کوتاہیوں کا فوری جائزہ لے کر تباہ شدہ معاشرہ کو سنبھالا دینے والے اقدامات کئے جانے کو اگر وقت کا تقاضہ نہ سمجھا گیا تو پھر میانمار سے باہر کی دنیا کی انسانی حقوق کی طاقتوں کے وجود پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ بدھسٹوں اور مسلمانوں کے درمیان تشدد کے باعث میانمار سے ہزاروں روہنگیائی، مسلمان پڑوسی ملکوں کو فرار ہونے کے لئے مجبور ہورہے ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کے مستقبل پر توجہ دیئے بغیر کوئی بھی قیام امن تنظیمیں اپنی ذمہ داریوں کو بروئے کار لانے کا جھوٹا دعویٰ نہیں کرسکتیں ۔ میانمار میں مسلم روہنگیا کی بہبودی کاموں کی نگرانی کرنے والے انسانی حقوق گروپ نے بین الاقوامی سطح پر اپیل کی ہے کہ اس ملک میں نسل کشی کی بڑھتی کارروائیوں کو روکنا ضروری ہے۔ 52 ملین بدھسٹوں کی آبادی میں ایک ملین مسلم روہنگیا ہیں اور یہ مسلمان نسل در نسل اس ملک میں رہ رہے ہیں۔ تشدد کی وجہ سے اب تک ہزاروں مسلمان پڑوسی ملکوں کو فرار ہوئے ہیں۔ ان میں بعض پناہ گزینوں کی بھی حالت تشویشناک ہونے کی رپورٹس بھی افسوسناک ہیں۔ ان پناہ گزینوں کو اذیت دی جارہی ہے۔ خواتین کی عصمت ریزی اور قتل کے بشمول انسانی حقوق کے سنگین جرائم کا کھلے طور پر ارتکاب کیا جارہا ہے، اس تلخ حقیقت کے باوجود اگر میانمار حکومت اور عالمی طاقتیں اپنے فرائض سیغفلت برت رہی ہیں تو یہ ایک منظم طریقہ کی سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں۔ مغربی ممالک کی خاموشی نے بھی میانمار کی بعض مخالف مسلم طاقتوں کے حوصلے بڑھا رہے ہیں۔ کوفی عنان راکھین اسٹیٹ پر بنائی گئی ایک اڈوائزری کمیشن کے چیرمین ہیں۔ طویل مدت سے جاری فرقہ وارانہ تشدد کا خاتمہ کرنے کے لئے وہ اپنی جانب سے بھرپور کوشش کررہے ہیں مگر ہر روز رونما ہونے والے نئے مسائل کو روکنے کے لئے ان کے پاس بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ حکومت میانمار سے یہ بھی شکایت کی جارہی ہے کہ کئی بین الاقوامی امدادی ورکرس کے سفری اجازت ناموں کا احیاء نہیں کیا جارہا ہے۔ قانون کی حکمرانی کو بالائے طاق رکھ کر مسلمانوں کی زندگیوں کو تباہ کردیا جارہا ہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ ساری دنیا کا امن پسند شہری میانمار میں لا اینڈ آرڈر کی برقراری پر زور نہیں دے رہا ہے۔ اقوام متحدہ ہائی کمیشن برائے پناہ گزین کی رپورٹ کے مطابق میانمار میں تقریباً 500,000 (پانچ لاکھ) مسلم روہنگیا داخلی طور پر بے گھر ہوچکے ہیں۔ 2014ء سے ان کی حالت دن بہ دن ابتر اور نازک ہوتی جارہی ہے۔ ایسے واقعات کے سدباب کیلئے اجتماعی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ورنہ مسلم نسل کشی کے واقعات صورتحال کو بھیانک بنا دیں گے۔
رقمی لین دین اور الیکٹرانک دور
رقمی لین دین کا عمل اب خالص الیکٹرانک طریقہ کار سے مربوط کردیا جارہا ہے تو اس کے ساتھ مناسب اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے ہندوستانی عوام کو نت نئے مسائل سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔ 500 اور 1000 کی پرانی نوٹوں کو منسوخ کرنے والی حکومت نے عوام کو نوٹوں کے رقمی بحران سے محفوظ رکھنے کے احتیاطی اقدامات نہیں کئے جس کے نتیجہ میں آج بھی بینکوں اور اے ٹی ایمس کے باہر عوام کی طویل قطاریں دیکھی جارہی ہیں۔ ملک بھر میں تنخواہ یاب طبقہ یکم تاریخ کے بعد اپنی مہینہ بھر کی محنت کی کمائی کو حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ عوام کو الیکٹرانک لین دین کا چلن اختیار کرنے اور اسے عام کرنے کا مشورہ دینے والی حکومت نے مشکلات اور مسائل کے درپیش ہونے پر اس سے بچنے کی تدابیر اختیار نہیں کی۔ الیکٹرانک لین دین کی ہندوستانیوں کو ترغیب دیتے ہوئے وزیر فینانس ارون جیٹلی نے کہا کہ عوام کو ہی ملک کو ڈیجیٹل کرنسی کے استعمال کا عادی بنانا چاہئے۔ مرکز نے گڈس اینڈ سرویس ٹیکس کو عصری ہندوستان کا سب سے بڑا معاشی اصلاحات والا قدم قرار دیا ہے مگر عوام کو اس الیکٹرانک طریقہ کار تک پہونچتے پہونچتے جو مسائل درپیش ہوں گے، انہیں دور کرنے کا کوئی آسان طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے 8 نومبر کو نوٹوں کی منسوخی کا اعلان کرتے ہوئے ہندوستان کی معیشت کو ایک کلین سسٹم سے مربوط کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا مگر رقم یا نقدی کے بغیر یہ غریب معاشرہ ایک اضطرابی کیفیت سے دوچار ہوچکا ہے۔ عوام کو اس اضطرابی کیفیت اور مشکلات سے چھٹکارا دلانے کے لئے حکومت کو ایک مضبوط اور موثر پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔