مسلم تحفظات اور بے روزگاری کا مسئلہ
کودنڈا رام کی تحریک سے مسلمانوں کو دور رکھنے کی کوشش
جماعت اسلامی کو وقف بورڈ کی رکنیت کا تحفہ ، حکومت کی مخالفت سے روکنے کا حربہ
حیدرآباد۔/25فبروری، ( سیاست نیوز) مسلم تحفظات، نوجوانوں کو روزگارکی فراہمی اور دیگر انتخابی وعدوں کی تکمیل کے سلسلہ میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے صدرنشین پروفیسر کودنڈا رام کی شروع کردہ تحریک سے خوفزدہ ٹی آر ایس حکومت نے مسلمانوں کو اس تحریک سے دور رکھنے کی کوشش کے طور پر جماعت اسلامی کو وقف بورڈ کی رکنیت کا تحفہ پیش کیا۔ حکومت کے باوثوق ذرائع نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وقف بورڈ کی تاریخ میں پہلی بار جماعت اسلامی کے کسی نمائندہ کی شمولیت کا مقصد دراصل جماعت اسلامی کو کودنڈا رام کی تحریک کی تائید سے روکنا ہے۔ تلنگانہ تحریک کے دوران جماعت اسلامی نے ’ تلنگانہ گرجنا ‘ کا اہتمام کرتے ہوئے علحدہ ریاست کی تائید کی تھی۔ اس کے علاوہ تلنگانہ پولٹیکل جوائنٹ ایکشن کمیٹی میں بھی جماعت اسلامی کا سرگرم رول رہا۔ ریاست کی تشکیل اور حکومت کے قیام کے بعد جماعت اسلامی کا تعلق کودنڈا رام سے برقرار رہا اور حالیہ عرصہ میں جماعت اسلامی نے مسلم تحفظات اور دیگر انتخابی وعدوں کے سلسلہ میں حکومت کے موقف پر نکتہ چینی کی۔ ایسے وقت جبکہ حکومت جماعت اسلامی کو اپنے قریب کرنے کا راستہ تلاش کررہی تھی وقف بورڈ کی تشکیل کا مرحلہ اسے ایک نعمت دکھائی دیا اور جماعت کے ایک ذمہ دار کو بورڈ میں نامزد رکن کی حیثیت سے شامل کردیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایسے وقت جبکہ کودنڈا رام مسلم تحفظات اور دیگر مسائل کے سلسلہ میں تحریک میں شدت پیدا کرنے کی تیاری کررہے ہیں وقف بورڈ کی رکنیت کا تحفہ دے کر جماعت اسلامی کو حکومت کے خلاف جانے سے روکنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عام طور پر جماعت اسلامی ، سرکاری عہدوں کے حصول کے خلاف ہے اور سابق میں جب مسلم یونائٹیڈ فورم کے ذمہ داروں نے سرکاری عہدے حاصل کئے تو جماعت نے فورم سے علحدگی اختیار کرلی تھی۔ اب جماعت کے ذمہ داروں کی جانب سے وقف بورڈ کی رکنیت کا سرکاری عہدہ قبول کرنا خود جماعت اسلامی میں بحث کا موضوع بن چکا ہے۔ جناب ملک معتصم خاں جنہیں معزز شخصیت کے زمرہ میں بورڈ کا رکن نامزد کیا گیا، بتایا جاتا ہے کہ وہ ریاستی اور مرکزی شوریٰ جماعت اسلامی کے رکن ہیں۔ اس طرح کا کوئی عہدہ حاصل کرنے سے قبل شوریٰ کی منظوری کا حصول ضروری ہے۔ یہ بات واضح نہیں ہے کہ کس طرح اس عہدہ کی قبولیت کا فیصلہ کرلیا گیا۔ جماعت اسلامی کے جس ذمہ دار کو وقف بورڈ کی رکنیت دی گئی وہ گذشتہ عام انتخابات میں حلقہ لوک سبھا نظام آباد سے ویلفیر پارٹی آف انڈیا کے امیدوار کی حیثیت سے چیف منسٹر کی دختر کویتا کے خلاف مقابلہ کرچکے ہیں۔ جماعت اسلامی کے دستور میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں دیکھی جارہی ہیں۔ ابتداء میں جماعت عملی سیاست سے دور تھی لیکن اب علحدہ سیاسی جماعت قائم کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ متحدہ آندھرا پردیش اور موجودہ تلنگانہ میں یہ پہلا موقع ہے جب جماعت نے کوئی سرکاری عہدہ حاصل کیا۔ عام مسلمان بھی اس بات پر حیرت میں ہے کہ کس طرح جماعت نے صرف رکنیت کے انعام پر قناعت کرلی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس معمولی کے عوض میں کیا جماعت اسلامی مسلمانوں کے اہم مسائل جیسے مسلم تحفظات اور بے روزگار نوجوانوں کو روزگار پر اپنی آواز اٹھا پائے گی۔