واشنگٹن،8 اکٹوبر ( سیاست ڈاٹ کام) امریکہ کی سرکردگی میں اتحادی افواج نے دولتِ اسلامیہ کے اُن جنگجوؤں کے خلاف اب تک سب سے مؤثر اور مسلسل حملے کئے ہیں جو ترکی اور شام کی سرحد پر واقع شامی قصبہ کوبانی پر حملہ آور ہیں۔شامی کرد جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ یہ حملے اب تک کے سب سے مؤثر حملے تھے مگر انھیں بہت پہلے کیا جانا چاہئے تھا۔نامہ نگاروں نے کہا کہ ان حملوں کے نتیجے میں دولتِ اسلامیہ کی پیش قدمی رُک گئی ہے۔ اس سے قبل صدر ترکی رجب طیب اردغان نے خبردار کیا کوبانی دولتِ اسلامیہ کے ’قبضے میں جانے کے قریب‘ ہے۔ دوسری جانب ترکی میں حکومت کے فوجی امداد نہ دینے کے فیصلے کے خلاف کرد شہریوں نے مظاہرے کئے جن میں 9 افراد ہلاک ہو گئے جبکہ 9 شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔اب تک کوبانی پر دولتِ اسلامیہ کے تین ہفتوں سے جاری حملوں کے نتیجے میں تقریباً 400 افراد مارے جاچکے ہیں اور تقریباً ایک لاکھ 60 ہزار شامی فرار ہو کر سرحد پار ترکی میں پناہ لے چکے ہیں۔ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول
اور کرد اکثریتی شہر دیار بکر میں بھی شدید مظاہرے ہوئے ۔ امریکی افواج کی جانب سے تازہ ترین بیان میں پانچ فضائی حملوں کی تصدیق کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ حملے پیر اور منگل کو کئے گئے مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ کہاں کئے گئے۔ ان حملوں میں دولتِ اسلامیہ کی چار مسلح گاڑیوں اور دولتِ اسلامیہ کا ایک یونٹ تباہ کردیئے گئے نیز ایک ٹینک اور ایک بکتر بند گاڑی جزوی طور پر تباہ ہوئی۔ ایک بیرونی نامہ نگار نے شام اور ترک سرحد سے بتایا کہ منگل کی سہ پہر مزید فضائی حملوں کی آوازیں سنی گئیں جس کے بعد اب تک ان حملوں کی تعداد آٹھ ہو چکی ہے۔ ان مسلسل حملوں کے نتیجے میں شہر کے اندر لڑائی کافی حد تک کمزور ہوئی اور اب نسبتاً خاموشی ہے یا اکا دکا فائرنگ کی آوازیں سنی جاتی ہیں۔استنبول کے غازی عثمان پاشا نے بتایا کہ ’’گزشتہ رات سے ہم نے کوبانی کے ارد گرد اب تک کے سب سے مؤثر فضائی حملے دیکھے ہیں، تاہم یہ کچھ تاخیر سے ہوئے ہیں۔ اگر اتحادیوں نے اس طاقت اور اثر کے ساتھ پہلے حملے کئے ہوتے تو ہم دولتِ اسلامیہ کو شہر کے قریب نہ پہنچتے دیکھتے اور بہت سی جانیں نہ ضائع ہوتیں‘‘۔