کوئی ماں باپ بیمار اولاد کی تڑپ برداشت نہیں کرتے

خون کی کمی کے خطرناک مرض میں مبتلا ماسٹر کامران مدد و ہمدردی کا طلب گار

حیدرآباد ۔ 21 ۔ فروری : والدین اپنے بچوں کی ہر خوشی پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے اپنی اولاد کے دنیا میں آنے اور پھر آنکھیں کھولنے سے لے کر ان کی مسکراہٹ ، گرگر کر چلنا ، دوڑنا اور پھر زندگی کے سفر میں پوری ذمہ داریوں کے ساتھ شامل ہونے غرض ہر ہر لمحہ والدین بچوں کی ہر حرکت پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں ۔ ان کی نظر میں ان کا اپنا بیٹا یا بیٹی ، بیٹے یا بیٹیاں دنیا کے سب سے خوبصورت بچے ہوتے ہیں ۔ وہ اس لیے کہ دنیا میں ماں باپ ہی ایسی دو شخصیتیں ہوتی ہیں جو اپنے بچوں کی کامیابیوں پر فرط مسرت سے جھوم اٹھتے ہیں اور اولاد کے تئیں ان کے دلوں میں حسد و جلن کا کوئی جذبہ نہیں ہوتا ۔ یعنی ماں باپ اور بچوں کے مابین ایک ایسا رشتہ ہوتا ہے ۔ جس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں ہوتی اولاد خوش ہوتے ہیں تو ماں خوش اور اولاد پریشان ہوتی ہے تو وہ بھی پریشان اور مغموم ہوجاتے ہیں ۔ ٹولی چوکی کے رہنے والے عطیہ صدیقہ اور محمد اکبر علی خاں ایسے ہی والدین ہیں جو اپنے ایک بیٹے کو لاحق مرض کے باعث انتہائی مغموم ہیں لیکن کمسن بیٹے محمد صدیق احمد خاں کامران کی آنکھوں میں آنسو نہ آئیں اس خوف سے وہ اپنے بیٹے کے سامنے رونے سے بھی قاصر ہیں کیوں کہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر وہ اپنے نور نظر کا علاج نہ کروا پائیں تو زندگی بھر وہ خود کو کبھی معاف نہ کرسکیں گے ۔ قارئین ۔

الکٹریشن محمد اکبر علی خاں اور عطیہ صدیقہ کو ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہے ان کی شادی سال 2008 میں ہوئی تھی ۔ پانچ سالہ لڑکے کی اکٹوبر 2013 میں اچانک طبیعت خراب ہونے پر جب ڈاکٹروں سے رجوع کیا گیا تو یہ جان کر اس جوڑے کے پاوں تلے زمین کھسک گئی کہ ان کا نور نظر خون کی کمی کی ایسی بیماری میں مبتلا ہے جس کا علاج ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔ مشکل اس لیے کہ اس خطرناک بیماری کا علاج غریب ماں باپ کے بس میں نہیں ۔محمد صدیق احمد کامران کے علاج کے لیے ڈاکٹروں نے 10 لاکھ روپئے کا خرچ بتایا ہے ۔ ایک غریب جوڑا جو کرائے کے مکان میں مقیم ہے کسی طرح 10 لاکھ روپئے اکٹھا کرسکتا ہے اس کے لیے اکبر علی خاں اور ان کی اہلیہ نے رشتہ داروں دوست احباب اور میڈیا سے مدد حاصل کی لیکن کوئی قابل ذکر رقم جمع نہ کرپائے ۔ محمد اکبر خاں اور ان کی اہلیہ نے بتایا کہ وہ غریب لوگ ہیں لیکن کوئی بھی ماں باپ اپنے بچوں کے علاج میں کسر باقی نہیں رکھتے ۔ اسی طرح ان لوگوں نے اپنے پاس جو کچھ تھا اسے فروخت کردیا اس کے باوجود بھی زیادہ رقم جمع نہیں کرپائے ۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ لڑکے کا علاج کیر ہاسپٹل کے ڈاکٹر شیلش آر سنگھ کے پاس ہورہا ہے ۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ لڑکے کی بیماری نے شدت اختیار کرلی ہے ۔ ایسے میں اس کا آپریشن بہت ضروری ہے ۔ اکثر اس مرض میں کمسن بچے مبتلا ہوتے ہیں ۔ آپ کو بتاتے ہیں کہ آخر کامران کو جو Aplastic anaemia ہوا ہے وہ کیا ہے ۔ دراصل یہ ایسی بیماری ہے جو قریبی رشتہ داروں میں شادی کرنے والے جوڑوں سے ہونے والی اولاد میں ہوتی ہے ۔ خاص طور پر قبائل میں یہ بیماری پائی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بیماری موروثی بھی ہوتی ہے ۔ اس عارضہ میں Bonemarrow ( ہڈی کا گودا ) خون کے اسٹیم سیل ، خون کے سفید و سرخ خلیے اور پلیٹ لیٹس کو شدید نقصان پہنچتا ہے جس سے نہ صرف مریض خون کی شدید کمی کا شکار ہوجاتا ہے ۔ بلکہ جسم کے مدافعتی نظام پر بھی اثر پڑتا ہے

واضح رہے کہ ہڈی کے گودا Bone marrow میں 30-70 فیصد خون کے اسٹیم سیلس ہوتے ہیں لیکن Aplastic anaemia یہ متاثرہ مریضوں کے ہڈی کے گودا میں اسٹیم سیل کی بجائے چربی جگہ لے لیتی ہے ۔ اس بیماری پر قابو پانے کے لیے اسٹیم سیل کی تبدیلی اور سرخ و سفید خلیوں کے ساتھ ساتھ پلیٹ لیٹس خلیوں کی پیداوار ضروری ہوجاتی ہے ۔ ماہر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس مرض کا علاج بنگلور اور دہلی میں بہتر انداز میں ہونا ہے کیوں کہ وہاں اس کے علاج کی کافی عصری سہولتیں موجود ہیں لیکن چاہتے ہوئے بھی یہ جوڑا اپنے بیٹے کا علاج کروانے سے قاصر ہے اور ملت سے مدد کا طلب گار ہے ۔ کاش ان ماں باپ کے اداس چہروں پر خوشیاں لانے کے لیے کوئی آگے بڑھے تو کتنا اچھا ہوتا ۔ بہر حال کارخانہ قدرت میں کیا کمی ہے وہ چاہے تو منٹوں میں ایسے بندے منظر عام پر آسکتے ہیں جو کامران کے علاج و معالجہ کے لیے اس کی مدد کرسکتے ہیں ۔ مدد کے لیے فون نمبرات 9392872971 اور 8099274441 پر ربط کیا جاسکتا ہے ۔ ان کے اکاونٹ نمبر کی تفصیلات اس طرح ہیں ۔۔
Atiya Siddiqua
A/c No. 31163881027, IFSC/SBIN 0005095
SBI Towli Chowki Branch, Hyd.