کوئی بھی سیاسی لیڈر پرانے شہر کی ترقی کے لیے سنجیدہ نہیں

عوام کو اپنے قائدین پر اعتبار نہ رہا ، موسیٰ ندی ، میر عالم تالاب پراجکٹس کے لیے صرف اعلانات
حیدرآباد۔7فروری(سیاست نیوز) موسی ندی کو خوبصورت بنانے کا پراجکٹ ہو یا میر عالم تالاب کے اطراف نیکلس روڈ کی تعمیر یا اسے خوبصورت بنانے کا پراجکٹ ہو ان پراجکٹس کے متعلق صرف اعلانات کئے جاتے ہیں اور ان اعلانات کے دوران کچھ سیاسی قائدین ان پراجکٹس کے دورے کرتے ہوئے پراجکٹ کی عاجلانہ تکمیل کی ہدایت دیتے ہیں لیکن اس کے بعد برسوں گذر جاتے ہیں لیکن اس پراجکٹ پر کوئی ترقیاتی کام نہیں ہو پاتے جس کے سبب پرانے شہر کے عوام کا سیاسی قائدین پر سے اعتبار ختم ہوتا جا رہا ہے اور لوگ یہ کہنے لگے ہیں کہ کوئی بھی سیاسی قائد پرانے شہر کی ترقی کیلئے سنجیدہ نہیں ہے۔ 2014عام انتخابات سے قبل رکن پارلیمنٹ حیدرآباد جناب اسد الدین اوسی نے میر عالم تالاب کا دورہ کرتے ہوئے میر عالم تالاب کو خوبصورت بنانے کے پراجکٹ کے کاموں کا جائزہ لیا تھا اور عہدیداروں کو ہدایت جاری کی تھی کہ وہ جلد از جلد اس پراجکٹ کی تکمیل کو یقینی بنائیں اور اسے بہتر سے بہتر بنانے کے اقدامات کئے جائیں ساتھ ہی انہوں نے اپنی جماعت کے منتخبہ نمائندوں کو بھی ان کاموں میں عہدیداروں سے تعاون کی ہدایت دی تھی لیکن اس دورے کے بعد اب 3سال گذر چکے ہیں لیکن ایسا ممکن نہیں ہو پایا ۔ مقامی عوام اور عہدیداروں کا کہنا ہے کہ 2014میں ماہ فروری کی ابتداء میں ہی رکن پارلیمنٹ نے میر عالم کا دورہ کیا تھا لیکن اس کے بعد کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوئے اور 2016میں مجلس اتحاد المسلمین نے مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کا انتخابی منشور جاری کیا جس میں میر عالم کو خوبصورت بنانے کے پراجکٹ کی عاجلانہ تکمیل کو ممکن بنانے کے عہد کا اعادہ کیا گیا ۔ میر عالم تالاب کے اطراف نیکلس روڈ کی تعمیر اور کشن باغ کے قریب سائیکلنگ کیلئے پاتھ وے کی تعمیر کے متعدد اعلانات کئے جا چکے ہیں علاوہ ازیں موجودہ حکومت نے بھی میر عالم تالاب میں کشتی رانی کی سہولت کے آغاز کا اعلان کیا تھا لیکن اس اعلان پر بھی کوئی عمل آوری نہیں ہو پائی ہے اور کسی منتخبہ نمائندے کو اس مسئلہ پر گفتگو کرنے کی فرصت نہیں ہے۔ میر عالم تالاب کے اطراف سڑک کی تعمیر اور اسے خوبصورت بنانے کے کاموں کا آغاز تلگو دیشم دور حکومت میں ہوا تھا لیکن اس کے بعد یہ کام ڈاکٹر راج شیکھر ریڈی کے دورۂ پرانا شہر تک مفلوج ہوگئے تھے لیکن ڈاکٹر راج شیکھر ریڈی کے دور اقتدار میں ایک مرتبہ پھر ان ترقیاتی کاموں کو شروع کیا گیا تھا لیکن اب دوبارہ یہ کام مفقود ہو چکے ہیں اور کوئی عہدیدار اس کی وجہبتانے کیلئے تیار نہیں ہے کیونکہ اسے اس بات کا ڈر ہے کہ حقیقی وجہ کے انکشاف کی صورت میں اس کا تبادلہ ہوجائے گا ۔ پرانے شہر کے پراجکٹس سے حکومت اور متعلقہ محکمہ جات کے علاوہ منتخبہ عوامی نمائندوں کی جانب سیاختیار کی جانے والی بے اعتنائی کا عوام کو اب شدت سے احساس ہونے لگا ہے کیونکہ انہیں اب اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے نئے شہر کے علاقوں میں فلائی اوور برجس اور دیگر ترقیاتی کا موں کی تکمیل ہو رہی ہے لیکن پرانے شہر میں منظور کئے جانے والے پراجکٹس برسہا برس تک جوں کے توں موقف کے حامل رہتے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کی جانب سے اس پراجکٹ کے ترقیاتی کاموں کے متعلق جائزہ اجلاس منعقد ہوئے بھی کافی عرصہ گذر چکا ہے اس کے باوجود اس مسئلہ پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے جو کہ افسوسناک ہے۔