کنٹراکٹ میریجس کے مسئلہ پر تلنگانہ قانون ساز کونسل میں مباحث

غریب مسلم خاندانوں کو اس لعنت سے نجات دلانے فوری اقدامات پر زور ، مسلم ارکان کا اظہار خیال
l پرانے شہر میں غریب لڑکیوں کی 80 تا 90 سال کے عربوں سے شادیاں
l معمولی رقم کے لالچ میں غریب والدین قاضیوں اور دلالوں کی دھوکہ دہی کا شکار
l حیدرآباد میں حالیہ برسوں میں 2000 سے زائد شادیاں انجام دی گئیں

حیدرآباد۔/3نومبر، ( سیاست نیوز) حیدرآباد میں کمسن غریب لڑکیوں کی ضعیف العمر عرب شہریوں سے کنٹراکٹ میاریجس کے مسئلہ پر تلنگانہ قانون ساز کونسل میں آج تفصیلی مباحث ہوئے۔ ارکان نے جماعتی وابستگی بالاتر ہوکر اس برائی پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور مستقل خاتمہ کیلئے سخت قانون سازی کی تجویز پیش کی۔ ارکان نے کہا کہ غریب مسلمانوں کی معاشی صورتحال کو بہتر بناتے ہوئے اس برائی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ کمسن لڑکیوں کیلئے تعلیم کے بہتر مواقع فراہم کئے جائیں تاکہ وہ والدین پر بوجھ نہ رہیں۔ معمولی رقم کی لالچ میں غریب والدین قاضیوں اور دلالوںکی دھوکہ دہی کا شکار ہورہے ہیں۔ وقفہ سوالات کے دوران ٹی آر ایس کے ایم ایس پربھاکر راؤ اور ڈاکٹر پی راجیشور ریڈی نے یہ سوال پیش کیا تھا۔ ایوان میں موجود تمام مسلم ارکان نے اظہار خیال کیا جبکہ بعض غیر مسلم ارکان نے بھی غریب مسلم خاندانوں کو اس سے نجات دلانے فوری اقدامات کی تجویز پیش کی۔ ایم ایس پربھاکر نے مباحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پرانے شہر میں غریب لڑکیوں کی زندگی سے کھلواڑ کیا جارہا ہے۔80 تا90 سال کے عرب شہریوں کی شادیاں 15-16 سال کی لڑکیوں سے انجام دی جارہی ہیں۔ قطر، یمن اور سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے یہ ضعیف العمر شہری قاضیوں کو بھاری رقومات دے کر لڑکیوں کی زندگی سے کھیل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ کئی برسوں میں تقریباً 2000 سے زائد اس طرح کی شادیاں انجام دی گئیں لیکن صرف 9 مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قاضیوں کے تقرر کا اختیار کس کو ہے اور قاضیوں کیلئے کیا شرائط ہیں اس سے عوام واقف نہیں۔ ہر علاقہ میں قاضی من مانی فیس وصول کررہے ہیں۔ لہذا حکومت کو چاہیئے کہ قاضیوں کیلئے رولس تیار کرے۔ انہوں نے بروکرس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک کتنے بروکرس کی نشاندہی کی گئی اس کی وضاحت ہونی چاہیئے۔ ایم ایس پربھاکر نے کہا کہ وزارت خارجہ کے تعاون سے عرب شریوں کیلئے ان کے ملک سے این او سی حاصل کرنے جیسی شرائط لاگو کی جاسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حیدرآباد کا نام ان واقعات کے سبب بدنام ہورہا ہے لہذا سخت قانون سازی کی جائے۔ قائد اپوزیشن محمد علی شبیر نے کہا کہ یہ معصوم لڑکیوں کی زندگی کا سوال ہے۔ کنٹراکٹ میاریجس غیر اسلامی ہیں اور حکومت کے ساتھ سماج کی بھی ذمہ داری ہے کہ ان برائیوں کے خلاف آواز اٹھائیں۔ انہوں نے کہا کہ قاضیوں اور بروکرس کی مدد سے ضعیف العمر عرب شہری کنٹراکٹ میاریج کے بعد چند دن رہ کر لڑکیوں کی زندگی تباہ کررہے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ آخر پرانے شہر میں ایسی کیا غربت ہوگئی کہ دو تا تین لاکھ روپئے میں لڑکیوں کو عرب شہریوں کے حوالے کیا جارہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک عرب شہری نے 20 شادیاں انجام دی ہیں جبکہ اسلام میں صرف 4 کی اجازت ہے۔ محمد علی شبیر نے سوال کیا کہ ایسی لڑکیوں کی دوبارہ شادی اور ان کی بازآبادکاری کیلئے وقف بورڈ کے پاس کیا منصوبہ ہے اور اس طرح کے واقعات کو روکنے کیلئے کیا اقدامات کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چند قاضی سارے سماج کو بدنام کرنے کے ذمہ دار ہیں اور یہ قاضی عدالت سے حکم التواء حاصل کرتے ہوئے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے خاطیوں کے خلاف پی ڈی ایکٹ کے استعمال اور عدالت میں حکم التواء کی برخواستگی کیلئے ایڈوکیٹ جنرل کی خدمات حاصل کرنے کی تجویز پیش کی۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ صرف پرانے شہر میں ہی یہ ریاکٹ کس طرح چل رہا ہے اور اسے کن کی سرپرستی حاصل ہے۔ پی راجیشور ریڈی نے کہا کہ گزشتہ 4 تا5 دہائیوں سے یہ اسکام جاری ہے اور یہ صرف امن و ضبط کا مسئلہ نہیں بلکہ سماجی مسئلہ ہے۔ سابق حکومتیں مسلمانوں کی غربت کا خاتمہ کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں تاہم ٹی آر ایس حکومت نے مسلمانوں کے لئے کئی اسکیمات کا آغاز کیا۔ تعلیمی ترقی کیلئے 200اقامتی اسکول قائم کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ بروکرس اور قاضیوں کا اس اسکام میں اہم رول ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس سے بچنے کیلئے مکانات کو گیسٹ ہاوزس میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ ٹی آر ایس رکن فاروق حسین نے کہا کہ یہ ایک مذہبی مسئلہ ہے لہذا قانون سازی سے قبل علماء، مفتیان کرام، وکلاء، ریٹائرڈ ججس اور قاضیوں کے نمائندوں سے مشاورت کی جانی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی اس اسکام میں ملوث پائے جائیں ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیئے۔ تاہم قواعد و ضوابط کی تیاری کے سلسلہ میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں کی رائے حاصل کی جانی چاہیئے۔ انہوں نے اسمبلی کی اقلیتی بہبود کمیٹی کے تحت ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز پیش کی تاکہ حکومت کو مجوزہ قانون کے سلسلہ میں رہنمائی کی جاسکے۔ کانگریس کے رکن پی سدھاکر ریڈی نے مسلم رہنماؤں سے مشاورت کے ذریعہ قانون سازی اور قانون پر سختی سے عمل آوری کی تجویز پیش کی۔ ٹی آر ایس رکن محمد سلیم نے کہا کہ وہ 2001-04 کے دوران وقف بورڈ کے صدرنشین رہے اور اس دوران انہوں نے ایر پورٹ پر عرب شہریوں کو گرفتار کرانے میں پولیس کی مدد حاصل کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس لعنت کے خاتمہ کیلئے انہوں نے قاضیوں کے ساتھ اجلاس منعقد کیا۔ محمد سلیم نے تجویز پیش کی کہ عرب شہریوں کو ایر پورٹ پر ایمیگریشن کاؤنٹر پر ہی جانچ کیلئے روکا جانا چاہیئے تاکہ اس بات کا پتہ چلے کہ وہ کس مقصد سے حیدرآباد آرہے ہیں۔ انہوں نے اسمگلرس کی طرح ضعیف العمر عرب شہریوں کی جانچ کا مطالبہ کیا۔ محمد سلیم نے کہا کہ چیف منسٹر نے شادی مبارک اور دیگر اسکیمات کا آغاز کیا ہے۔ ٹی آر ایس کے رکن محمد فرید الدین نے تجویز پیش کی کہ شریعت کو پیش نظر رکھتے ہوئے قانون سازی کی جائے۔ انہوں نے اس اسکام کی مذمت کی اور کہا کہ مذہبی اعتبار سے یہ ناقابل قبول ہے ساتھ میں سماجی طور پر بھی اس کی تائید نہیں کی جاسکتی۔ انہوں نے سماج کی جانب سے اس برائی کے خلاف جدوجہد کا مشورہ دیا۔