کمیونسٹ جماعتوں کو مستحکم کرنے مساعی

یہ سوچ کر کہ خود سے کہاں تک لڑے کوئی
سمجھوتہ اپنے آپ سے کرنا پڑا اُسے
کمیونسٹ جماعتوں کو مستحکم کرنے مساعی
گذشتہ دنوں مارکسسٹ کمیونسٹ پارٹی کی سہ روزہ کانفرنس وشاکھاپٹنم میں منعقد ہوئی ۔ کانفرنس میں مختلف امور پر غور کرنے کے علاوہ پارٹی کے نئے جنرل سکریٹری کا انتخاب بھی عمل میں لایا گیا ۔ سینئر کمیونسٹ رہنما سیتارام یچوری کو پارٹی کی نیا جنرل سکریٹری منتخب کرلیا گیا ہے ۔ اس سے قبل پرکاش کرت یہ ذمہ داری سنبھالے ہوئے تھے ۔حالانکہ مسٹر کرت ایک سلجھے ہوئے اور سنجیدہ فکر کے لیڈر ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کے دور میں پارٹی کو استحکام حاصل ہونے کی بجائے پارٹی کمزور ہوتی چلی گئی اور اسے مغربی بنگال جیسی ریاست میں بھی اقتدار سے محروم ہونا پڑا ۔ کیرالا میں اس کی طاقت میں کمی آئی ہے ۔ ملک میں دوسرے مقامات پر بھی دوسری کمیونسٹ جماعتوں کے ساتھ سی پی ایم کی مقبولیت میں بھی کمی آئی ہے ۔ بنگال میں تو ممتابنرجی نے عوام کو ایک موثر اور نیا متبادل پیش کرتے ہوئے کمیونسٹ تحریک سے دور کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرلی تھی ۔ اب سیتارام یچوری کو پارٹی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور مسٹر یچوری بھی ایک سنجیدہ فکر کے سلجھے ہوئے لیڈر ہی ہیں۔ اپنے انتخاب کے بعد وہ بتدریج اپنے عزائم اور منصوبوں کو واضح کرنے لگے ہیں۔ انہوں نے پارٹی جنرل سکریٹری کی ذمہ داری سنبھالنے کے فوری بعد کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ سب سے پہلے سی پی ایم کو مستحکم اور مضبوط کیا جائے ۔ وہ جمہوری طاقتوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے بھی حامی ہیں اور چاہتے ہیں کہ ملک کی تمام کمیونسٹ جماعتوں کو ایک کردیا جائے ۔ جس طرح سے حالیہ دنوںمیں جنتادل کی جماعتوں کا اتحاد ہوا ہے اس کے بعد کمیونسٹ جماعتوں کے اتحاد کی بات بھی شروع ہوئی ہے ۔ مسٹر یچوری کا کہنا ہے کہ وہ تمام کمیونسٹ جماعتوں کو متحد کرنا چاہتے ہیں اور جلد یا بدیر یہ کام ہوگا ضروری ۔ سی پی ایم ‘ بائیں بازو اتحاد میں شامل تمام جماعتوں میں زیادہ طاقتور جماعت رہی ہے اور عوامی سطح پر بھی اسے دوسری کمیونسٹ جماعتوں سے زیادہ مقبولیت رہی ہے ۔ مغربی بنگال میں اقتدار کی قیادت ہو یا پھر کیرالا میں حکومت میں شراکت ہو ‘ تریپورہ میں اقتدار ہو یا دوسری ریاستوں میں جدوجہد ہو سی پی ایم نے کمیونسٹ جماعتوںکی قیادت کی ہے ۔ اسی جماعت کو عوامی مقبولیت کے گراف میں کمی کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔
اب جبکہ پارٹی کو انتخابی شکستوں کا بھی سامنا کرنا پڑا اور اسے اقتدار سے بھی ہاتھ دھونا پڑا ہے تو اس کے سامنے پارٹی کو مستحکم کرنے کا ایک بڑا چیلنج ہے ۔ اسے دوبارہ خود کو عوامی جدوجہد کیلئے تیار کرنے کی ضرورت ہے اور یہ جدوجہد بھی عوامی مزاج کے مطابق ہونی چاہئے ۔ اپنے نظریات کو عوام پر مسلط کرنے کا وقت اب گذر چکا ہے اور عوام کو وقت نزاکتوں کا احساس دلاتے ہوئے ان میں شعور بیدار کیا جائے اورپھر جدوجہد کیلئے تیار کیا جائے تو پھر یہ کام زیادہ مشکل نہیں ہوسکتا ۔ اس کی مثال دہلی سے ملتی ہے جہاں عوام نے اپنی ترجیحات کو پیش نظر رکھتے ہوئے سارے ہندوستان میں لوک سبھا انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی بی جے پی جیسی جماعت کو بھی تین سے زیادہ نشستیں دینے سے گریز کیا اور عام آدمی پارٹی کو دہلی کی تاریخ کی سب سے شاندار کامیابی دلائی تھی ۔ سی پی ایم کو بھی اسی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے آپ میں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔ عوامی توقعات کے مطابق پارٹی کی پالیسیوں کو تیار کرتے ہوئے ان کی تائید حاصل کی جاسکتی ہے ۔ پارٹی کے مفادات کو عوام کے مفادات سے مربوط کیا جائے تو پھر یہ جنگ زیادہ مشکل نہیں ہوگی ۔ جب خود یہ پارٹی مستحکم اور مضبوط ہوجائیگی تو اسے دوسری جماعتوں کو بھی مدد کرنے اور پھر بالآخر انضمام کی کوشش کرنا بھی زیادہ مشکل کام نہیں رہ جائے گا ۔
سی پی ایم ہو یا دوسری کمیونسٹ جماعتیں ہوں انہیں یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ وقت کے ساتھ بدلنا انسانی فطرت ہے اور فطرت سے انحراف ممکن نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ ملک کے سکیولر اور سوشلسٹ ڈھانچہ کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانا بھی ان جماعتوں کی ذمہ داری ہے ۔ انہیں فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف بھی بے تکان جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے اور فراخدلانہ معاشی پالیسیوں کے نام پر کارپوریٹ شعبہ کی سرپرستی و غریبوں و لاچاروں کے حقوق کی پامالی کے خلاف بھی انہیں ایک طویل اور صبرآزما جدوجہد کی ضرورت ہے اور یہ سب کچھ اسی وقت ہوسکتا ہے جب خود یہ جماعتیں متحد اور مستحکم ہوں ۔ انہیں عوام کی تائید حاصل ہو ۔ دوسری جماعتیں بھی اسی صورت میں بائیں بازو کا ساتھ دے سکتی ہیں جب خود یہ اتحاد مستحکم اور مضبوط ہو ۔