کمسن لڑکیوں کی ضعیف العمر عرب شہریوں سے شادی روکنے قانون سازی

سماج کے تمام فریقین سے مشاورت کے بعد حیدرآباد سے لعنت کو ختم کرنے کا ڈپٹی چیف منسٹر محمود علی کا عزم
حیدرآباد۔/3نومبر، ( سیاست نیوز) ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی نے کہا کہ حیدرآباد میں کمسن لڑکیوں کی ضعیف العمر عرب شہریوں سے غیر قانونی کنٹراکٹ میاریجس کی روک تھام کیلئے حکومت قانون سازی کی تجویز رکھتی ہے۔ قانون سازی سے قبل تمام فریقین سے مشاورت کی جائے گی تاکہ حیدرآباد سے اس لعنت کا خاتمہ کیا جاسکے۔ ڈپٹی چیف منسٹر آج قانون ساز کونسل میں وقفہ سوالات کے دوران ایم ایس پربھاکر اور پی راجیشور ریڈی کے سوال کا جواب دے رہے تھے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ حکومت کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ ریاست میں قاضیوں کی جانب سے غیر قانونی کنٹراکٹ شادیاں انجام دی جارہی ہیں۔ محمود علی نے بتایا کہ 2011 سے اب تک دونوں شہروں حیدرآباد اور سکندرآباد میں 9 مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ 4 قاضیوں کو معطل کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس غیرقانونی سرگرمی کے سدباب کے سلسلہ میں سنجیدہ ہے۔ وقفہ سوالات میں تحریری جواب کے بعد مختلف ارکان نے مباحث میں حصہ لیا جس پر وزیر فینانس ای راجندر نے مداخلت کرتے ہوئے صدرنشین کونسل سے اپیل کی کہ مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر مختصر مدتی مباحث کا اہتمام کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اس برائی کے خاتمہ کیلئے سنجیدہ ہیں اور تمام ارکان نے بھی ان حالات پر تشویش کا اظہار کیا ہے لہذا ان کی تجویز ہے کہ اس سوال کو مختصر مدتی مباحث میں تبدیل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مباحث کے ذریعہ مجوزہ قانون سازی کے حق میں بہتر تجاویز پیش کی جاسکتی ہیں۔ قائد اپوزیشن محمد علی شبیر نے مختصر مدتی مباحث کی تائید کی اور جلد از جلد ایجنڈہ میں شامل کرنے پر زور دیا۔ صدرنشین کونسل سوامی گوڑ نے تیقن دیا کہ وہ اس مسئلہ پر فلور لیڈر سے مشاورت کے بعد مباحث کی تاریخ طئے کریں گے۔ اجلاس کے بعد ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی نے بتایا کہ مجوزہ قانون سازی کے سلسلہ میں ایڈوکیٹ جنرل سے رائے طلب کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون سازی کے ذریعہ نہ صرف عرب شہریوں پر حیدرآباد میں شادیوں کیلئے مختلف شرائط عائد کئے جائیں گے بلکہ انہیں شادی کیلئے اپنے ملک سے حاصل کردہ اجازت نامہ پیش کرنا ہوگا۔ یہ اجازت نامہ حیدرآباد پولیس کو پیش کیا جائے اور وہ تمام اُمور کی جانچ کرتے ہوئے شادی کی اجازت دے گی۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ اقلیتی بہبود نے مسودہ قانون تیار کیا ہے جس میں عمر کا فرق اور شادی کے موقع پر لڑکی کے نام پر معقول رقم ڈپازٹ کرنے جیسی شرائط رکھی گئی ہیں۔ محمود علی نے بتایا کہ لاء ڈپارٹمنٹ سے کلیرنس کے بعد علماء، مفتیان، ریٹائرڈ ججس، دانشوروں اور قاضیوں سے مشاورت کی جائے گی تاکہ شریعت میں مداخلت کی کوئی گنجائش نہ رہے۔ انہوں نے کہا کہ حیدرآباد میں مسلمانوں کی غربت کا استحصال کرتے ہوئے بعض قاضی حضرات بروکرس کی مدد سے اس اسکام میں ملوث ہیں۔ جو کوئی بھی قاضی اس طرح کی سرگرمیوں میں قصوروار پائے جائیں گے ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ سٹی پولیس نے بھی قاضیوں اور بروکرس کی نشاندہی کی ہے۔ محمود علی نے کہا کہ غریب لڑکیوں کا استحصال کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے مسلمانوں میں تعلیمی اور معاشی پسماندگی کے خاتمہ کیلئے کئی منفرد اسکیمات کا آغاز کیا ہے۔ یہ اسکیمات ملک کی کسی اور ریاست میں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان اسکیمات کے ذریعہ کنٹراکٹ میاریج جیسی برائیوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔