نئی نسل کیلئے نمائش کی تاریخ اہمیت کی حامل ۔ سرکاری سرپرستی بھی حاصل ۔ خازن سوسائیٹی انیل سوروپ مشرا کا بیان
حیدرآباد ۔ 30 ۔ دسمبر : ( سیاست نیوز ) : نمائش کے اہتمام سے صرف شہریوں کو خرید و فروخت یا تفریح کا موقعہ میسر نہیں آتا بلکہ کل ہند صنعتی نمائش کے انعقاد سے زائد از 10 ہزار افراد کو جزوقتی روزگار حاصل ہوتاہے ۔ نمائش سوسائٹی کی جانب سے 46 روزہ نمائش کے دوران ہونے والی زائد ا ز 85 فیصد آمدنی لڑکیوں کی تعلیمی و صنعتی ترقی پر خرچ کی جاتی ہے ۔ جناب انیل سوروپ مشرا نے آج ا یک خصوصی بات چیت کے دوران یہ بات بتائی ۔ انہوں نے بتایا کہ کل ہند صنعتی نمائش کی تاریخ انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور اسے فراموش نہیں کیا جاسکتا چونکہ یہ تاریخ نئی نسل کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہے اسی لیے اس تاریخ کو سوسائٹی کی جانب سے عصری ٹکنالوجی یعنی ویب سائٹ کے ذریعہ دنیا بھر تک پہنچا رہی ہے ۔ انیل مشرا کے بموجب یکم جنوری 2015 سے شروع ہونے والی 75 ویں کل ہند صنعتی نمائش جو کہ ’ نمائش ‘ کی پلاٹنیم جوبلی ہے کے دوران 2500 کے قریب اسٹالس لگائے جائیں گے ۔ جن میں ملک کے مختلف مقامات سے تعلق رکھنے والے تاجرین حصہ لیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ 1938 میں شروع کردہ اس نمائش کا ابتدائی نام ’ نمائش مصنوعات ملکی ‘ تھا اور اس نمائش کو ابتداء سے ہی حکومت وقت کی سرپرستی حاصل رہی ۔ 1938 میں جس وقت باغ عامہ میں پہلی مرتبہ نمائش کا انعقاد عمل میں آیا تھا اس وقت نمائش میں صرف 100 اسٹالس تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ آصف سابع کے سلور جوبلی کے انعقاد کے موقعہ پر اسٹالس لگائے گئے تھے اور اس نمائش کے انعقاد میں نواب میر احمد علی خاں ، بیرسٹر میر اکبر علی خاں ، جناب محمد عبدالوہاب ، جناب عبدالرحیم ، جناب محمد علی خاں ، راجہ گروداس ، جناب شنکر جی ، جناب جاگیر دار ، جناب محمود علی ، جناب پریم جی لعل جی ، محمد فاورق وغیرہ کا اہم رول رہا ۔ پہلی باضابطہ نمائش کے انعقاد کا منصوبہ جناب محمد فاروق ، جناب خواجہ حمید احمد اور جناب عبدالرحیم نے تیار کررتے ہوئے پیش کیا تھا ۔ اور پہلی باضابطہ نمائش کے انعقاد میں وقت کے کمشنر بلدہ حیدرآباد جناب مہدی نواز جنگ بہادر نے بھی اہم کردار ادا کیا ۔ جناب انیل سوروپ مشرا خازن نمائش سوسائٹی نے بتایا کہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اس نمائش کو سرکاری سرپرستی حاصل رہی ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ موجودہ نمائش میدان میں ’ نمائش مصنوعات ملکی ‘ کا انعقاد پہلی مرتبہ 1946 میں عمل میں آیا ۔ جب اس وقت کے وزیر اعظم ریاست دکن حیدرآباد سر مرزا اسمعیل نے موجودہ 23 ایکڑ اراضی حوالے کی ۔ بعد ازاں موجودہ نمائش سوسائٹی کا رجسٹریشن قوانین ہند کے مطابق 1956 میں عمل میں لایا گیا ۔ انہوں نے بتایا کہ نمائش کی پلاٹنیم جوبلی کے دوران تقریبا 25 لاکھ افراد کے نمائش کا مشاہدہ کرنے کی توقع ہے ۔ نمائش کی تاریخی اہمیت اپنی جگہ درست ہے لیکن نمائش کے انعقاد میں جن لوگوں کا کلیدی کردار رہا ہے ان لوگوں کے افراد خاندان کے متعلق اور اردو کے استعمال پر موجودہ سوسائٹی کا رویہ حیدرآباد کے شہریوں کے لیے یقینا قابل اعتراض ہے حالیہ دنوں میں نمائش سوسائٹی کے بورڈ پر اردو تحریر نہ کئے جانے کے مسئلہ پر شہر میں نمائش سوسائٹی کے رویہ کو متعصبانہ قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے چونکہ ریاست تلنگانہ میں اردو کو دوسری سرکاری زبان قرار دئیے جانے کے باوجود اس زبان کے ساتھ نا انصافی ہورہی ہے ۔ اس مسئلہ پر وضاحت طلب کئے جانے پر جناب انیل سوروپ مشرا نے بتایاکہ نمائش کے مرکزی باب الداخلہ پر اردو میں ’’ نمائش ‘‘ تحریر ہے اور یہ کہنا درست نہیں ہے کہ نمائش سوسائٹی اردو کے متعلق متعصب رویہ اختیار کئے ہوئے ہے لیکن سوسائٹی کے دفتر پر جس بورڈ پر اردو نہ ہونے کی شکایت کی جارہی ہے اس بورڈ کی صرف تبدیلی عمل میں آئی ہے اور اسے قدیم بورڈ کے طرز پر ہی تیار کیا گیا ہے ۔ انہوں نے نمائش سوسائٹی کے اردو سے تعصب کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سوسائٹی کا یہ ایقان ہے کہ ’ حیدرآباد میں رہنا ہے تو اردو آنا پڑتا ‘ اور نمائش سوسائٹی یہ سمجھتی ہے کہ اردو اور ہندی کے علاوہ دکنی زبان کے فروغ میں سوسائٹی نمائش کے 46 دن کے دوران کلچرل پروگرامس کے ذریعہ اہم کردار ادا کررہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نمائش سوسائٹی کے تحت 18 تعلیمی ادارہ جات میں اردو مضمون پڑھانے کا نظم ہے اس کے باوجود اس طرح کے الزامات درست نہیں ہے ۔