دو قدم تم بھی بڑھو اور دو قدم ہم بھی بڑھیں
خود بخود جو فاصلہ ہے درمیاں کٹ جائیگا
کل جماعتی وفد کا دورہ کشمیر
کشمیر میں کل جماعتی وفد علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنے سے قاصر رہا۔ وادی کی بگڑچکی حالت کو فوری بہتر بنانے کی کوشش کے حصہ کے طور پر یہ وفد مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کی قیادت میں وادی پہونچا تھا۔ کشمیر میں موجودہ صورتحال کے لئے کس کو ذمہ دار ٹہرایا جائے۔ اس سوال کے درمیان اگر کل جماعتی وفد نے مقامی افراد، قائدین اور سماج کے اہم ذمہ داروں سے ملاقات کرکے مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے تو یہ ایک مثبت تبدیلی ہے مگر علیحدگی پسندوں نے وفد میں شامل ارکان سے بات چیت نہیں کی۔ سید علی شاہ گیلانی نے بائیں بازو قائدین، سیتارام یچوری اور ڈی راجہ کو اپنے گھر کے دروازے سے مایوس لوٹا دیا۔ سید علی شاہ گیلانی ایک سنجیدہ کشمیری علیحدگی پسند لیڈر ہیں ان سے وفد کے ارکان ملاقات کرنا چاہتے تھے۔ اس ملاقات سے انکار کی وجہ کچھ بھی ہو وادی میں موجودہ صورتحال کو یوں ہی نازک حالات کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ مسئلہ کشمیر کے اہم موضوع پر مذاکرات کی بنیاد پر ایک شفاف ایجنڈہ لے کر آنے والے قائدین کو موقع دیا جائے تو کوئی نہ کوئی راہ نکل سکتی ہے۔ چیف منسٹر جموں و کشمیر محبوبہ مفتی نے وادی کو گزشتہ دو ماہ سے بدامنی کی آگ سے باہر نکالنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی۔ اب انہوں نے حرکت کرتے ہوئے بحیثیت چیف منسٹر اپنے وجود کو محسوس کیا ہے جو کل جماعتی وفد کو وادی کا دورہ کرنے کی دعوت دے کر وہ ایک طرح اپنی ذمہ داری کو ظاہر کرنا چاہتیں ہیں مگر جب وفد کو مدعو کیا جارہا تھا تو اس وفد کے لئے ایک مضبوط ایجنڈہ اور شفاف منصوبہ بھی واضح کیا جاتا۔ علیحدگی پسند قائدین کی مرضی و منشا معلوم کئے بغیر اور اپنے دورہ کی اصل بنیاد اور ایجنڈہ کو واضح کئے بغیر وفد نے ان کشمیری علیحدگی پسند قائدین سے ملاقات کی کوشش کی جو اب میں کشمیری علیحدگی پسند قائدین نے وفد کو مایوس کردیا۔ اہم مسئلہ پر حقیقی شفاف ایجنڈہ کی بنیاد پر پارلیمانی وفد کے ذریعہ بحران کو دور کرنے کے طریقہ کار کا اختیار ضرور دیاگیا مگر اس کے لئے پیشگی تیاری نہیں کی گئی۔ علیحدگی پسند لیڈروں نے چیف منسٹر جموں و کشمیر محبوبہ مفتی کے رول پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔ ان کا یہ ماننا ہے کہ محبوبہ مفتی مسئلہ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کررہی ہیں۔ ان واقعات کے تناظر میں ان کا رول بد حواسی کا شکار نظر آتا ہے۔ وادی کشمیر کی صورتحال کے بارے میں مرکز کے موقف کو بھی علیحدگی پسند قائدین تنقید کا نشانہ بناتے آرہے ہیں۔ ان قائدین کا خیال یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے کنپٹی پر بندوق رکھ کر اپنا موقف بدلنے کے لئے دبائو ڈالا جارہا ہے۔ علیحدگی پسندوں سے بات چیت کے لئے کل جماعتی وفد روانہ کرنے یا مدعو کرنے سے پہلے مرکز اور ریاستی حکومتوں کو چاہئے تھا کہ وہ وادی میں سکیوریٹی فورسس اور پولیس کی زیادتیوں سے متعلق عوام کی شکایات کا فوری ازالہ کرتی۔ پلیٹ گنوں کا استعمال روکنے کا اعلان کرکے اس اعلان سے منحرف ہونا بھی کشمیری علیحدگی پسندوں کے لئے تشویشناک تھا۔ کل جماعتی وفد کے دورہ کے دوران بھی وادی میں سکیوریٹی فورسس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کے نتیجہ میں 400 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ کشمیری عوام کو گزشتہ دو ماہ سے پیلٹ بندوقوں، تشدد، تصادم اور فائرنگ کا اسیر بناکر رکھا گیا ہے۔ کل جماعتی وفد کی آمد سے پہلے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وادی کے لوگوں کو کرفیو، تشدد، فائرنگ اور سکیوریٹی فورسس کی زیادتیوں اور شکایات کو دور کردیا جاتا۔ کشمیری عوام کے درد اور الم کو سمجھنے کے لئے وفد وادی تو پہونچا مگر اپنے ساتھ اس درد کی کیا دوا لائی ہے یہ واضح نہیں کیا۔ کسی بھی سمت کچھ پیشرفت کرنے کے لئے راحت کا پہلو بھی تلاش کرنا ضروری ہوتا ہے۔ چیف منسٹر محبوبہ مفتی کو چاہئے تھا کہ وہ کل جماعتی وفد کو مدعو کرنے سے قبل ایک شفاف و مضبوط ایجنڈہ تیار کرتی اور اس ایجنڈہ کو واضح کرکے عوام کو اعتماد میں لیا جاتا۔ جب کشمیری عوام حکومت کے ایجنڈہ پر مطمئن دکھائی دیتے تو ماباقی صورتحال سے نمٹنے میں آسانی ہوتی۔ مگر ایک نازک مسئلہ کے لئے غیر سنجیدہ قدم اٹھایا گیا ۔ نتیجہ میں وفد کے دورہ کا اصل مقصد معلق ہی رہا۔